ایک تِتلی مُجھے گُلستاں میں مِلی |
ظُلم کی اِنتہا داستاں میں مِلی |
غُسل دو جو نہ ہاتھوں سے اپنے کیے |
زِندگانی فقط درمیاں میں مِلی |
بعد مُدّت اذاں اِک اذانوں میں تھی |
رُوح سی اِک بِلالی اذاں میں مِلی |
کل کہا اور تھا، آج کُچھ اور ہے |
کیسی تفرِیق اُس کے بیاں میں مِلی |
پر کٹا اِک پرِندہ تھا قیدی کہِیں |
اِک دبی چِیخ سی بے زُباں میں مِلی |
میں سِتاروں میں قِسمت کو ڈُھونڈا کرُوں |
بے کلی ہی مگر کَہکشاں میں مِلی |
اُس کے چہرے پہ ہیبت نمایاں رہی |
اور ٹھنڈک سی آتِش فِشاں میں مِلی |
جیسی صُورت سے اُن کو نوازا گیا |
کب کِسی کو زمِین و زماں میں مِلی |
میں زمِیں پہ محبّت کی سِیڑھی بنا |
داد حسرتؔ مُجھے آسماں میں مِلی |
رشِید حسرتؔ |
معلومات