سوچو امیرِ شہر نے لوگوں کو کیا دِیا
بُھوک اور مُفلسی ہی وفا کا صِلہ دیا
کوٹھی امیرِ شہر کی ہے قُمقُموں سجی
گھر میں غرِیبِ شہر کے بُجھتا ہُؤا دِیا
ہم نے تُمہیں چراغ دیا، روشنی بھی دی
تُم نے ہمارے دِل کا فقط غم بڑھا دیا
ہم سے ہماری تِتلیوں کے رنگ لے اُڑے
آنکھوں کو موتیوں کا عجب سِلسِلہ دیا
کاٹی کِسی کی جیب یہ جورو کو کیا پتہ
اُس نے مگر دُکان سے سودا تو لا دیا
ہم نے کہا کہ ہے کوئی ہم سا حسِین بھی
چُپکے سے ایک آئنہ لا کر تھما دیا
پُونجی تھی عُمر بھر کی، لگائی مکان پر
آیا سڑک کی زد میں، حُکُومت نے ڈھا دیا
وہ جا رہی تھی مائی کے دو دِن کے واسطے
آباد گھر میں کمرے کو تالا لگا دیا
پڑھتا تھا کِس لِیئے وہ یہاں کھول کر کِتاب
حسرتؔ حسد سے بلب ہی میں نے بُجھا دیا
رشِید حسرتؔ

0
44