یقِیں نہِیں تو محبّت کو آزماتا جا |
لُٹا خُلوص، وفاؤں کے گِیت گاتا جا |
تقاضہ تُجھ سے اگر کر رہی کوئی ممتازؔ |
دل آگرہؔ ہے محل اِس پہ تُو بناتا جا |
بجا کہ ہم نے تُجھے ٹُوٹ کر ہے سراہا، پر |
اب اِس قدر بھی نہِیں رُوح میں سماتا جا |
نہ ہو کہ بعد میں مُمکِن نہِیں ہو تیرے لِیئے |
ابھی سے مُجھ سے ذرا فاصلہ بڑھاتا جا |
تِرا نصّیب ہُوں جیسا بھی ہُوں سمیٹ مُجھے |
بُدک نہ مُجھ سے تُو ہنس کر گلے لگاتا جا |
میں تیرے بعد بھلا جی کے بھی کرُوں گا کیا |
چلا ہے تُو تو دِیّا سانس کا بُجھاتا جا |
کبھی شرِیک تھا حسرتؔ نفع تھا یا نقصان |
نہِیں ہے اب تو کہِیں پر بھی تیرا کھاتہ، جا |
رشید حسرتؔ |
معلومات