اُترے تھے میدان میں، ہارے، ڈُوب گئے |
بیڑا غرق کیا اور سارے ڈُوب گئے |
آٹا، سبزی، دالیں بس سے باہر ہیں |
گھی کا پُوچھ کے شرم کے مارے ڈُوب گئے |
ڈِگری ہے پر آب و نان نہِیں مِلتا |
ماؤں کے سب راج دُلارے ڈُوب گئے |
بُھوک اُگائی، مُلک میں دہشت پھیلائی |
اور چلا کر دِل پر آرے ڈُوب گئے |
سایہ کیا پانا تھا پایا اندھیارا |
اندھیارے میں دُھوپ کنارے ڈُوب گئے |
ہم نے چاند کی کیا فرمائِش کر ڈالی |
چاند تو کیا مِلنا تھا تارے ڈُوب گئے |
تھا فنکار کمال کا لیکِن مُفلس تھا |
سب تحرِیریں سب فن پارے ڈُوب گئے |
جو حق کی آواز اُٹھائیں دیکھا ہے |
بِیچ بھنور میں وہ بے چارے ڈُوب گئے |
جِن سے آس لگا بیٹھے خُوشحالی کی |
حسرتؔ وہ سب چاند سِتارے ڈُوب گئے |
رشِید حسرتؔ |
معلومات