جگائی ہم نے پہلُو میں وفا کی جُستجُو برسوں |
بھٹکنا ہی پڑا درویشوں کو سو کُو بہ کُو برسوں |
مقیّد کوئی گُلشن میں ہے پنچھی مُضطرب، گرچہ |
"لگایا ڈھیر پُھولوں کا قفس کے رُوبرُو برسوں" |
بہار آتے ہی پُھولوں نے اُسے معتُوب ٹھہرایا |
کہ جِس نے بیل بُوٹوں کو پِلایا ہے لہُو برسوں |
ہمیں شوقِ شہادت تھا سو کی ہے جادہ پیمائی |
رہا درد و الم کا اِک تسلسُل چار سُو برسوں |
کِسی کا رنج اپنانے سے چہرہ جگمگائے گا |
رکھی گی بد نُما چہرے کو نیکی خُوبرُو برسوں |
ابھی دست و گریباں ہیں قبِیلے دَورِ جِدّت میں |
رہا کرتے جہالت میں تھے جیسے دُو بہ دُو برسوں |
کبھی رنگِین دُنیا کی طرف دیکھا نہِیں مُڑ کر |
ہمیں حلقہ کِیے بیٹھی رہی ہے آرزُو برسوں |
ارے او غم بھلا کِس زُعم میں آنکھیں دِکھاتا ہے |
فنا ہو جائے گی دُنیا رہیں گے ہم، نہ تُو برسوں |
عداوت کا ہماری جِس جگہ وہ ذِکر چھیڑے گا |
سراہے جائیں گے حسرتؔ عدُو پر ہو گی تُھو برسوں |
رشِید حسرتؔ |
معلومات