بے ضمیرے نہ کسی طور بھی پالے جائیں |
تھام کر ہاتھ یہ اب گھر سے نکالے جائیں |
قرض ہم نے جو دیا، کوئی بڑا جرم کیا؟ |
روز ہی اور کسی روز پہ ٹالے جائیں |
اشک تُو نے جو دیئے قیمتی سرمایہ ہیں |
تیرے بخشے ہوئے موتی نہ سنبھالے جائیں |
ہاں میں جو ہاں کے ہیں قائل وہی محفل میں رہیں |
جو مری ضد میں اٹھا لائے حوالے، جائیں |
سخت مشکل میں ہیں، اے اہلِ وطن کیا ہوگا؟ |
روز حالات نئے سانچوں میں ڈھالے جائیں |
دل (کہ آسیب زدہ ایک حویلی ہے) مرا |
اس کی پہچان (یہی ہوتے ہیں جالے)، جائیں؟ |
صاحبِ شہر تو آزاد ہر افتاد سے ہے |
اور مشکل میں ہمی لوگ ہی ڈالے جائیں |
کس ڈھٹائی سے یہ اعلان ہؤا ہے سرِ بزم |
گورے رہ جائیں یہاں جتنے ہیں کالے، جائیں |
میں جو چپ ہوں تو ہوں انجان ضروری تو نہیں |
آپ کے روپ میں ہیں کتنے اجالے؟ جائیں |
یاد زندہ ہے تجھے کیسے نکالوں دل سے |
ڈوبیں دریا میں تو مُردے ہی اچھالے جائیں |
دل میں حسرتؔ ہے مجھے آخری بار آ کے ملو |
کیا ملے مجھ کو سکوں، ہونٹوں سے نالے جائیں |
رشید حسرتؔ |
یہ غزل ۰۳ فروری ۲۰۲۵، صبح سوا آٹھ بجے مکمل ہوئی۔ |
معلومات