عجب گُماں دلِ خُوش فہم کو لگا تو ہے |
رہے گا کیسے مِرے بِن جُدا ہُؤا تو ہے |
خیال کو کبھی تجسِیم کر کے چُومتا ہُوں |
نہِیں ہیں آپ مگر عکس آپ کا تو ہے |
امیرِ شہر تو گتّے کا پہلواں نِکلا |
سلام فوج کو جِس نے قدم لِیا تو ہے |
الگ یہ بات کرُوں اعتراف یا کہ نہِیں |
کہِیں جہاں میں محبّت نہِیں ہے، یا تو ہے |
سمیٹ لے یہ حقارت، گلہ نہ کر کوئی |
محبتوں کا تِری اِک یہی صِلا تو ہے |
کِیا ہے رابطہ اُس نے جو مُدّتوں کے بعد |
اب اُس کے لوٹنے کا کوئی آسرا تو ہے |
ہیں فصلِ گُل کے سبھی مُنتظر، خزاں صُورت |
بہار لوٹ کے آتی ہے یہ سُنا تو ہے |
کھڑا ہُوں دیکھتا اُس کو میں چھوڑ جاتے ہُوئے |
یہ وقت دوستو کُچھ صبر آزما تو ہے |
رشِیدؔ جِس سے تُجھے بے سبب شِکایت ہے |
صِلہ وفاؤں کا اُس نے جفا دیا تو ہے |
رشِید حسرتؔ |
معلومات