اک وہ ترا انداز تھا، اک یہ ترا انداز ہے |
شکوہ کبھی لب پر نہیں، اپنی وفا پر ناز ہے |
ہونٹوں پہ تیرے رس بھرے نغمے مچلتے ہی رہے |
دل میں اتر کر رہ گئی، کیسی تری آواز ہے |
سنجیدہ ہو کر اس کے سرد و گرم سے کچھ سیکھ لے |
کھلتا نہیں ہر ایک پر، جیون یہ ایسا راز ہے |
پنچھی کوئی قیدی ترے قالب میں ہے کچھ دھیان کر |
اک دن رہا ہو جائے گا، اونچی بہت پرواز ہے |
جو اصل میں فنکار ہیں، وہ تو پسِ دیوار ہیں |
آگے وہی ہیں جن میں کوئی سُر نہ کوئی ساز ہے |
پہچان تم کو ہے اگر، کیسے برابر ہو گئے؟ |
جب اک طرف کرگس ہے یارو، اک طرف شہباز ہے |
جا سے ہٹا حسرتؔ کوئی، سمجھو کہ دھوکہ تھا کھلا |
پیچھے کبھی ہٹتا نہیں، یہ عشق کا اعجاز ہے |
رشید حسرتؔ |
بتاریخ ۲۵ مارچ ۲۰۲۵، شب گیارہ بج کر ۲۵ منٹ پر یہ غزل تکمیل پذیر ہوئی۔ |
معلومات