سبز ہوتی ہے کبھی سرخ کہانی، پانی
اور ہوتی ہے شہیدوں کی زبانی، پانی
کیوں اُچھل کر نہِیں قدموں میں گرا شاہوں کے
شرم سے دوستو پانی ہؤا پانی پانی
کیسے پابندی لگی تجھ پہ فرات آج بتا
پھر بھی قائم تھی بھلا کیسے روانی، پانی؟
لے کے مشکیزہ علمدار چلے سُوئے فرات
سُوکھے ہونٹوں پہ سکینہ کے تھا پانی پانی
یوں تو کربل میں تِری بوند کو ترسے ہیں شہید
تُو نے دیکھی تو جوانوں کی جوانی پانی
کچھ پتہ تجھ کو بھی اے نہر ہُؤا ہے کہ نہیں؟
آ کے ٹھہرا ہے کوئی یوسفِ ثانی، پانی
پیاس پیاسوں کی اگر یہ نہ بُجھا پایا رشید
پھر تو رکھتا ہی نہیں کوئی معانی پانی
رشِید حسرتؔ

1
61
شاہ رئیس شمالی آپ کا بہت شکریہ

0