جانتا کوئی نہِیں آج اصُولوں کی زباں |
کاش آ جائے ہمیں بولنا پُھولوں کی زباں |
موسمِ گُل ہے کِھلے آپ کی خُوشبُو کے گُلاب |
بولنا آ کے ذرا پِھر سے وہ جُھولوں کی زباں |
یہ رویّہ بھی ہمیں شہر کے لوگو سے مِلا |
پُھول کے مُنہ میں رکھی آج ببُولوں کی زباں |
آپ نے سمجھا ہمیں غم کا تدارُک بھی کیا |
جانتا کون بھلا ہم سے فضُولوں کی زباں |
بے وجہ غرق کوئی ایک بھی اُمّت نہ ہُوئی |
ڈالتے پُشت پہ جب لوگ رسُولوں کی زباں |
ہم نے مانا کہ اُسے پِھر بھی بنے رہنا تھا |
کاٹتی دِل کو مگر درد شمُولوں کی زباں |
آج حسرت سے ہر اِک دُور نِکل بھاگے ہے |
کیا ہُؤا؟ بولتا ہے کیا یہ بگُولوں کی زباں |
رشِید حسرتؔ |
معلومات