جنم لِیا ہے جو اِنساں فروش نگری میں |
سکُوت چھایا ہُؤا ہے خموش نگری میں |
جو مُنہ کی کھا کے پلٹتا ہے اور بستی سے |
نِکالتا ہے وہ سب اپنا جوش نگری میں |
اگرچہ چہرے سے یہ سخت گِیر لگتے ہیں |
سبھی ہیں دوست صِفَت برف پوش نگری میں |
تُمہارے شہر کے شر شور کا اثر ہی نہِیں |
کہ چھوڑ آیا ہُوں مَیں چشم و گوش نگری میں |
پڑی ہے سب کو یہاں اپنا سر چُھپانے کی |
کوئی تو مُجھ سا دِکھے سر فروش نگری میں |
امیرِ شہر نے صرفِ نظر پِسر سے کیا |
غریبِ شہر کا نِکلا ہے دوش نگری میں |
اُگا رہے ہیں یہاں فصل ظُلمتوں کی جو |
سُنائی دی ہے نوائے سروش نگری میں |
بہار آئی ہے پِیلی خزاں رُتوں کے بعد |
سو پایا جاتا ہے جوش و خروش نگری میں |
رشِیدؔ نام کے، سُنتے ہیں کوئی شاعر ہیں |
نہِیں ہے اُن سا کوئی شَبد کوش نگری میں |
رشِید حسرتؔ |
معلومات