غم کی کِس شکل میں تشکِیل ہُوئی جاتی ہے |
آدمیت کی بھی تذلِیل ہُوئی جاتی ہے |
ہر قدم زِیست چھنکتی ہے چھناکا بن کر |
جِس طرح کانچ میں تبدِیل ہُوئی جاتی ہے |
اُس کے حِصّے کی زمِینیں بھی مِرے ہاتھ رہِیں |
مُستقِل طور پہ تحصِیل ہُوئی جاتی ہے |
اب مِرا اُس سے تعلُّق بھی نہِیں ہے کوئی |
اور احکام کی تعمِیل ہُوئی جاتی ہے |
میں نے کھائی تھی قسم اُس کا بھرم رکھ لُوں گا |
پر بیاں ساری ہی تفصِیل ہُوئی جاتی ہے |
اور کُچھ روز مِرا ظرف کشا کش میں رہے |
اِس بہانے مِری تکمِیل ہُوئی جاتی ہے |
سارا دِن دُھوپ میں جلتا ہُوں فقط روٹی کو |
زخم سے پِیٹھ مِری نِیل ہُوئی جاتی ہے |
ابرہہؔ بن کے نہ کر میرے حرمؔ پر حملہ |
بے بسی اب تو ابابِیلؔ ہُوئی جاتی ہے |
کِس تکلُّف سے تِرا درد مِرے ساتھ رہا |
یاد کی رو ہے کہ تمثِیل ہُوئی جاتی ہے |
اب تو دو وقت کی روٹی بھی میسّر ہے کہاں |
زِندگی بُھوک میں تحلِیل ہُوئی جاتی ہے |
میں سمجھتا تھا اُسے بُھول گیا ہوں حسرتؔ |
پر چُبھن دِل میں مِرے کِیل ہُوئی جاتی ہے |
رشِید حسرتؔ |
معلومات