کبھی جھانکو صنم خانے میں آ کر |
رہو کُچھ دِن تو وِیرانے میں آ کر |
وہی خالق نُمایاں جا بجا ہے |
کُھلا ہے مُجھ پہ بُت خانے میں آ کر |
اِرادہ تو نہِیں تھا میرا لیکن |
بہایا خُوں کِسی طعنے میں آ کر |
پڑھو چہروں پہ غم کی داستانیں |
کچہری میں، کبھی تھانے میں آ کر |
جُدا ماں باپ سے اب ہو چلا ہوں |
فقط بِیوی کے بہکانے میں آ کر |
بہُت اچھے تھے جب تک ہوش نا تھا |
لُٹایا خُود کو فرزانے میں آ کر |
اب اِس کے ہونٹ چُومُوں؟ یا نہ چُومُوں؟ |
یہ بیٹھا کون پیمانے میں آ کر؟ |
وہ میری مان لیتا کیا بُرا تھا؟ |
گنوایا وقت سمجھانے میں آ کر |
کہ جِس کِردار کی تھی پیاس حسرتؔ |
مِلا عصمتؔ کے افسانے میں آ کر |
رشِید حسرتؔ |
معلومات