ہم نے اپنی تمہیں شاعری بھیج دی
اس میں ہے یا نہیں دل کشی، بھیج دی
رات بھر اس کی تجسیم کرتا رہا
پھر سحر باندھ کر چاندنی بھیج دی
ہم ہیں پردیس میں در بدر، اپنے گھر
اپنا سارا سکوں، تازگی بھیج دی
ہم نے سنجیدہ اک بات کی تھی مگر
اس کو سوجھی کوئی دل لگی بھیج دی
چوڑی ٹوٹی کوئی اک ہرے رنگ کی
جو رکھی تھی نشانی تری، بھیج دی
مے سے جو بے خودی ہم پہ طاری ہوئی
ہم نے تھوڑی رکھی، تھوڑی سی بھیج دی
ساز ٹوٹے مرے صوت بیٹھی ہوئی
اس کو بے وقت کی راگنی بھیج دی
لب کیے تر یہاں بنتِ انگور سے
اور ہونٹوں کی سب تشنگی بھیج دی
جسم پر اوڑھ لیں ساری تاریکیاں
اس کو حسرتؔ مگر روشنی بھیج دی
رشید حسرتؔ
۰۷، نومبر ۲۰۲۵

0