پیار سے ہاتھ لیا کھینچ تو تضحیک ہوئی |
عشق میں رابطہ رہنے کی تو تصدیق ہوئی |
تو اگر مجھ سے ہے وابستہ تو اظہار بھی کر |
منہ سے مانگی ہوئی، چاہت نہ ہوئی، بھیک ہوئی |
جب تلک نسخ میں تحریر تھی تہذیب رہی |
اِس کی شاگرد بنی، اُس کی اتالیق ہوئی |
خوش لباسی کا تو مقصود ہی تن ڈھانپنا ہے |
کیسی پوشاک ہوئی، جسم پہ باریک ہوئی |
وہ ہیں مسند پہ، جنہیں میں نے سکھایا چلنا |
اپنی تقدیر کہ تاریک سے تاریک ہوئی |
دیکھ کر مجھ کو وہ نفرت سے ہی منہ موڑ گئے |
اپنی صورت یہ اُگل دان ہوئی، پِیک ہوئی |
راز داروں نے ترے راز کیے فاش مگر |
تجھ کو خوش فہمی کی بیماری رہی، ٹھیک ہوئی؟ |
کیا کہوں اس کو برے حال میں دیکھا ہے کہیں |
وہ پڑی چوٹ کہ ہمّت مِری تفریق ہوئی |
تو یہ کہتا ہے تجھے علمِ رجال آتا ہے |
تو رشیدؔ اتنا بتا کیا تری تحقیق ہوئی؟ |
رشید حسرتؔ |
۲۷ اگست ۲۰۲۴ |
معلومات