کوئی بیٹھا ہے الگ ہو کے، جُدائی کر کے
ہم چلے آئے بڑی دیر دُہائی کر کے
ہم کو آپس میں لڑاتے ہیں تماشے کے لِیئے
لُوٹ لیتے ہیں ہمیں ایک اِکائی کر کے
گھر میں پوچے کے لِیئے ہم نے رکھی تھی مائی
گھر سے بھاگی وہ کہِیں، گھر کی صفائی کر کے
ہم کو مُرسل کی غُلامی کا مزہ آیا ہے
رُتبہ پایا ہے اِسی در کی گدائی کر کے
تُم کو بیٹے کی کُھلے دِل سے مُبارک ہو مِیاں
لے کے آئے گا کِسی روز کمائی کر کے
شہر میں دُھول کا اُٹھتا ہُؤا طُوفان سا ہے
چھوڑ کر بیٹھے جو روڈوں کی کُھدائی کر کے
تیرے جلووں کا نہِیں کوئی یہاں قدر شناس
کیا مِلا تُجھ کو خُدا! جلوہ نُمائی کر کے
ساری بہنیں ہیں مگر دوست ہمیں چھوٹی ہے
گھر میں ہم اُس کو بُلاتے ہیں سبھائی کر کے
وہ جو اِک قید پرِندہ ہے بدن میں حسرتؔ
محوِ پرواز مگر دیکھو رِہائی کر کے
رشِید حسرتؔ

0
47