نہ پوچھو ہم سے، پھر کیا دل کو سمجھانے میں گزری
چھلکتے ہی رہے ہم، عمر پیمانے میں گزری
اسے اپنے رویّّے سے خفا ہم کر تو بیٹھے
سو باقی کی جو رہ جاتی تھی بہلانے میں گزری
ابھی تک بھول پایا ہوں نہ اس بت کا بچھڑنا
کٹا تھا دن سسکتے، رات میخانے میں گزری
رکھی جس نے ہمارے ساتھ سب الجھا کے چھوڑی
ہماری عمر پھر الجھن کے سلجھانے میں گزری
خسارے ہی خسارے بھاگ میں رکھے گئے تھے
بہت کھونے میں، اک تھوڑی ذرا پانے میں گزری
یہاں ملتی ہیں ناکردہ گناہوں کی سزائیں
احاطہ میں نہیں آتی ہے جو تھانے میں گزری
وگرنہ ہم نے حسرتؔ تیرگی میں آنکھ کھولی
بنانے میں، مقدّر اپنا چمکانے میں گزری
رشید حسرتؔ
مورخہ ۲۵ فروری ۲۰۲۵ رات بارہ بج کر ۵۱ منٹ پر غزل تکمیل کو پہنچی۔

0
7