بِچھڑا وہ گویا زِیست میں آیا کبھی نہ تھا |
اُس نے مِرے مِزاج کو سمجھا کبھی نہ تھا |
لہجے میں اُس کے تُرشی بھی ایسی کبھی نہ تھی |
دِل اِس بُری طرح مِرا ٹُوٹا کبھی نہ تھا |
گو اِضطراب کی تو نہ تھی وجہ ظاہری |
دِل کو مگر قرار کبھی تھا، کبھی نہ تھا |
مانا کہ زِندگانی میں آئے، گئے ہیں لوگ |
کوئی بھی اُس گلاب نُما سا کبھی نہ تھا |
آیا بھی میرے شہر، مِلے بِن بھی جا چُکا |
جیسا ہُؤا ہوں آج، میں تنہا کبھی نہ تھا |
گُھٹنے ہی اُس نے ٹیک دِیئے، ہار مان لی |
لوگو! وہ ایک شخص جو ہارا کبھی نہ تھا |
راہِ وفا میں دشت بھی تھے، وحشتیں بھی تِھیں |
گر کُچھ نہ تھا تو زُلف کا سایہ کبھی نہ تھا |
جھیلا ہے درد ہنستے ہُوئے، کھیلتے ہُوئے |
کیا شخص تھا جو شِکوہ سراپا کبھی نہ تھا |
راتیں کٹی ہیں، دِن بھی گُزارے گئے رشِیدؔ |
دیتا جو دُکھ میں ساتھ سہارا کبھی نہ تھا |
رشِید حسرتؔ |
معلومات