گلاب چہرہ بہاروں میں آ کے بیٹھ گئے |
عدو کے حربے سہاروں میں آ کے بیٹھ گئے |
لکھے ہوئے ہیں جو ارمان پڑھ تو سکتے ہو |
کہ سب یہ نان کے پاروں میں آ کے بیٹھ گئے |
یہ ماہ و مہر بھی، یہ کہکشاں بھی دھوکہ ہے |
کہ جگنو آنکھ کناروں میں آ کے بیٹھ گئے |
امیرِ شہر نے فیضان کا کِیا اعلاں |
غنی بھی عرض گزاروں میں آ کے بیٹھ گئے |
کوئی تو دستِ صبا پر پیامِ دل ہی کھلے |
پرندِ عشق قطاروں میں آ کے بیٹھ گئے |
بسے ہیں آنکھ کے حلقے میں جگنووں کے جھنڈ |
کہ شاہ زادے حصاروں میں آ کے بیٹھ کئے |
ترنگ بوندوں میں کیسی؟ فضا میں نقش و نگار |
سُرور ٹھنڈی پھواروں میں آ کے بیٹھ گئے |
نگر میں جب سے ہؤا راج سرد مہری کا |
وفا شعار یہ غاروں میں آ کے بیٹھ گئے |
رشیدؔ دھونی بنانے لگی ہے مرغولے |
مجاور آج مزاروں میں آ کے بیٹھ گئے |
رشِید حسرتؔ |
مورخہ ۰۵ مئی ۲۰۲۵ بوقت ۰۰-۰۱ بجے دوپہر یہ غزل مکمل کی گئی۔ |
معلومات