لا کے چھوڑا ہے مُجھے چھوڑنے والے نے کہاں؟
چین کا سانس لِیا درد کے پالے نے کہاں
اپنی دھرتی سے ہُؤا دُور تو احساس ہُؤا
کھینچ کے لایا ہے روٹی کے، نِوالے نے کہاں؟
جانتا ہُوں کہ تُو نادان سمجھتا ہے مُجھے
اِک ذرا راز کِیا فاش یہ بالے نے کہاں؟
اب سے پہلے میں کبھی اپنا ہُؤا کرتا تھا
اپنا رہنے ہی دیا تیرے حوالے نے کہاں؟
کی وفا مُجھ سے کہاں رات کی تارِیکی نے
چین بخشا ہے کبھی دِن کے اُجالے نے کہاں؟
میں تِرے لوٹنے کی آس لِیئے بیٹھا ہُوں
روک رکھا ہے تُجھے سوچ کے جالے نے کہاں؟
چاند کو حلقہ کِیے رہتا ہے بس چودھویں رات
بات مانی ہے کبھی چاند کے ہالے نے کہاں؟
سب کے اخبار تو بے رنگ بھی مُشہور ہُوئے
نام پایا ہے مِرے درد رِسالے نے کہاں
اِک تصّوُر نے تِرا رنگ ہی بدلا ہے رشِیدؔ
آگ سُلگائی ہے اِس برف کے گالے نے کہاں؟
رشِید حسرتؔ

0
60