ہو کے نا کام بھی آتا ہے مگر جاتا ہے |
دِل اڑے ضِد پہ تو یادوں کے نگر جاتا ہے |
یاد آتا ہے کوئی عُمر گُزرنے کے ساتھ |
اور لمحوں میں کوئی دِل سے اُتر جاتا ہے |
کِتنا مشّاق نقب زن ہُوں چُراؤں اسباب |
اور اِلزام کِسی اور کے سر جاتا ہے |
پہرہ دینا تھا اُسے کیسے بھلا سو لیتا |
صُبح ہوتے ہی وہ بازار سے گھر جاتا ہے |
جھگڑا ماں باپ کا معمُول اگر ہو جائے |
اِس کا بچّوں کے بھی زہنوں پہ اثر جاتا ہے |
بات کُچھ اور نہ تھی اُس کو بِچھڑ جانا تھا |
دیکھ محبُوب کی آنکھوں سے گُہر جاتا ہے |
وہ جِسے رُتبہ شہادت کا ہُؤا ہے معلُوم |
سر بکف جاتا ہے، وہ سینہ سپر جاتا ہے |
اِتنا آساں بھی نہِیں راہِ وفا پر چلنا |
روگ لگتا ہے کبھی ہاتھ سے سر جاتا ہے |
کِسی بچے کو بِلکتا ہُؤا دیکھا جو کبھی |
رونا آتا ہے یہ دِل درد سے بھر جاتا ہے |
وہ جِسے لوگ سمجھتے تھے کہ نا اہل ہے یہ |
معرکے عِشق کے کرتا ہُؤا سر جاتا ہے |
جِس نگر جا کے رہُوں ساتھ مِرے اے حسرتؔ |
چاک پر کُوزہ بنانے کا ہُنر جاتا ہے |
رشِید حسرتؔ |
رابطہ نمبر۔ 03337952607 |
معلومات