ابھی مَیں وقت پہ جاگا ضمِیر زِندہ ہے
پڑا ہے قید میں لیکِن اسِیر زِندہ ہے
تُم اپنے بھاگ ذرا آزما کے دیکھ تو لو
مُرادیں پوری کرے گا یہ پِیر زِندہ ہے
فقِیری حال کو پہنچے ہو جِس کے کارن تُم
منا لو جشن تُمہاری وہ ہِیرؔ زِندہ ہے
کوئی بھی حرف تُمہارے وقار پر صاحب
نہ آنے دے گا، ابھی یہ فقِیر زِندہ ہے
ہُؤا ہے حادثہ عُجلت سے کار والے کی
خُدا کا شُکر مگر راہگِیر زِندہ ہے
یہ اپنی غیرتِ مِلّی کو بیچ بیٹھا ہے
ہمارے ٹُکڑوں پہ اعلیٰ وزِیر زِندہ ہے
ہمارے دم سے عِمارت میں شان ہے لوگو
رہے گا جب تلَک آجر اجِیر زِندہ ہے
ہماری فصل گئی ساتھ میں زمِیں بھی گئی
چُھڑائیں کیسے یہ حسرتؔ کہ مِیر زِندہ ہے
رشِید حسرتؔ

0
6