خزاں کی رت کو بھی ہنس کر بہار ہم نے کیا |
نہ آنے والے! تِرا انتظار ہم نے کیا |
جنوں میں کوئی بھی شئے پاس کب رہی اپنے |
رہا گریباں، سو وہ تار تار ہم نے کیا |
کیا تھا جس نے بھروسہ، نتیجہ بھی دیکھے |
تمہارے وعدے پہ کب اعتبار ہم نے کِیا؟ |
تمہیں سکون ملے، ہو قرار کی صورت |
جو بن پڑا ہے، دلِ بے قرار! ہم نے کِیا |
دیا تھا زخم ہمیں عام سی شباہت کا |
کسی کے تحفے کو پھر زر نگار ہم نے کیا |
تمہارے بعد یہ جیون تھا آگ کا دریا |
نہ پوچھ کتنی مشقت سے پار ہم نے کیا |
رشیدؔ اپنی حقیقت کسے نہیں معلوم |
خود اپنا آپ تہجُّد گزار ہم نے کِیا |
رشِید حسرتؔ |
معلومات