مُجھے قرِیب سے جو دیکھ اِنہماک کے ساتھ |
ہُؤا ہے مُجھ پہ مُسلّط تُو پُوری دھاک کے ساتھ |
مَیں تُجھ کو دِل کے نگر کا بناؤں گا سرپنچ |
ہر اِک قدم پہ مِلوں گا بڑے تپاک کے ساتھ |
پڑے جو وقت کبھی مُجھ کو آزما کے تو دیکھ |
لُٹاؤں جان بھی مَیں تُجھ پہ اِشتیاق کے ساتھ |
کہا تھا کِتنا کہ اپنی انا سے باز رہے |
وہ ہاتھ جاں سے بھی دھویا ہے اپنی ساک کے ساتھ |
زمِیں پہ راکھ جو ہر سُو دِکھائی پڑتی ہے |
مِرا وجُود بھی بِکھرا پڑا ہے راک کے ساتھ |
مَیں پُوچھ بیٹھا کہ یہ موت کیا ہے، کیسی ہے؟؟ |
بتا گیا وہ معانی بھی اِشتقاق کے ساتھ |
نماز کیسی کہ دِل سے غِلاظتیں نہ گئِیں |
رشِیدؔ ماتھا رگڑنا ہے صِرف ناک کے ساتھ |
رشِید حسرتؔ |
معلومات