ایک فِتنہ ہو نِرا خاتُون تُم
تُم ثمر پہنو کہ پہنو اُون تُم
ہم یہاں پٹنہؔ میں تنہا رہ گئے
جا بسے ہو کاہے دیرا دُونؔ تُم
تمتماتا ہے رُخِ روشن حُضُور
جنوری میں بھی ہو گویا جُون تُم
کوئی مُشکل سر اُٹھائے گی نہِیں
یاد کر لو بس دُعا مسنُون تم
دل میں طاقت کا اضافہ تم سے ہے
گویا قوّت کا کوئی معجون تُم
میرے ارمانوں کا محور بھی تُمہِیں
اور ارماں کا کرو گے خُون تُم
جسم دو ہوں گے مگر ہے رُوح اِک
ہم اکیلے کب ہیں صاحب دُون تُم
کیسا لہجہ ہے تُمہارا دلپذِیر
ہم تو پِھیکے سے ہیں سب میں تُھون تُم
لو برابر کے ہُوئے گھائِل رشِیدؔ
ہم اِدھر پاگل، اُدھر مجنُون تُم
رشِید حسرتؔ

0
20