وہ میرا خواب تھا، تعبِیر میری تھا ہی نہِیں
بِچھڑ گیا ہے کبھی مُجھ سے جو مِلا ہی نہِیں
مثال دُوں میں بھلا کِس کو آپ کے رُخ سے
زمانہ دیکھ لِیا، کوئی آپ سا ہی نہِیں
یہ کیسا شہر ہے جِس میں نہِیں ہے مے خانہ
کہِیں بھی بادہ و پیمانہ و صُراحی نہِیں
سنبھالو، موت کا لُقمہ نہ بن گئی ہو کہِیں
بڑی ہی دیر سے اُمید جو کراہی نہِیں
تو پِھر بُرا مِرا ہر ایک چاہتا کیوں ہے
کہ جب یہ طے ہے کِسی کی بُرائی چاہی نہِیں
اُٹھائے جاتے ہیں ہم نِت نئے گُناہ کا بوجھ
خُود اپنے آپ سے پُوچھو کہ یہ تباہی نہِیں؟
رشِیدؔ کہتا تھا جو ساتھ عُمر بھر کا ہے
وہ شخص سنگ مِرے دو قدم چلا ہی نہِیں
رشِید حسرتؔ

0
18