قہقہے ہونٹ مگر زخم کِیے دیتے ہیں
چلو دِکھلاتے نہِیں چاک سِیے دیتے ہیں
کون سُقراط کی مانند پِیے گا پیالہ
آؤ یہ کارِ جہاں ہم ہی کِیے دیتے ہیں
گھر میں مُدّت کے اندھیروں کو مِٹانے کے لیے
اِستعارے کو وہ آنکھوں کے دِیے دیتے ہیں
اِتنی مُدت میں کِیا تُم نے طلب کُچھ ہم سے
جِتنے لمحات خُوشی میں تھے جِیے، دیتے ہیں
آپ نے وار کیا ہم پہ تو پِھر ہم بھی تُمہیں
جاری رکھنے کو جفا تیغ لِیے دیتے ہیں
اشک آنکھوں میں صنم کی، نہِیں دیکھے جاتے
آنسُوؤں کے سبھی سیلاب پِیے دیتے ہیں
لوگ حسرت یہ خُدا کو بھی خُدا مانتے ہیں
منّتی چادریں پِیروں پہ بِی یے دیتے ہیں
رشِید حسرتؔ

0
44