چاند پر ہم نے قدم رکھا ہے دیکھا خواب میں |
آنکھ جب کھولی تو پایا خُود کو اک گرداب میں |
حُکمرانوں کی غلط انداز طرزِ فِکر سے |
دور وہ آیا سکت باقی نہِیں اعصاب میں |
تُم نے گاؤں میرے سمجھانے پہ بھی چھوڑا نہِیں |
کوئی مینڈک جِس طرح سڑتا رہے تالاب میں |
زِندگی تُو نے ہِمیں دھوکہ دیا ہر گام پر |
آج بھی ارماں مچلتے ہیں دلِ بے تاب میں |
اے دلِ کم حوصلہ کُچھ ضابطوں کا مان رکھ |
ضبط پہلی شرط ٹھہری عِشق کے آداب میں |
ہم نے آنکھوں میں سجا رکھے ہیں موتی آبدار |
جب کبھی جھانکا دِکھی تصوِیر تیری آب میں |
بے تکلُّف گُفتگُو کو اب ترستے ہیں رشِیدؔ |
حوصلہ کُچھ بھی نہِیں باقی رہا احباب میں |
رشِید حسرتؔ |
معلومات