خُود کو آنسُو کر لِیا ہم نے خُوشی کرتے ہُوئے
موت کی آغوش میں ہیں زِندگی کرتے ہُوئے
کیا کہیں کیسی شِکست و ریخت کا تھا سامنا
اپنے ارمانوں سے دامن کو تہی کرتے ہُوئے
کُچھ پتہ ہی نا چلا من پر کہاں شب خُوں پڑا
دِل لگی میں، دِل لگی سے، دِل لگی کرتے ہُوئے
اب کہاں کے مرحلے یہ بِیچ میں آنے لگے
کوئی شرطیں تو نہیں تِھیں دوستی کرتے ہُوئے
جب یہ دیکھا ظاہری چہرے کی وُقعت ہے یہاں
من اندھیرا کر لیا، تن روشنی کرتے ہُوئے
دِل کا مندر صاف ہم کرتے نہِیں اصنام سے
بُت پرستی بھی ہے جاری، بندگی کرتے ہُوئے
ایک مُدّت ہوگئی دِل ہم نے کھویا تھا کہِیں
سُنتے ہیں پایا گیا آوارگی کرتے ہُوئے
فاصلے جو بیچ میں تھے پاس کتنے تھے کبھی
دُور جا بیٹھے ہیں ربطِ باہمی کرتے ہُوئے
رندؔ ہُوں، وعدہ شِکن ہوں، کیا بھروسہ ہے رشِیدؔ
آج توبہ، کل جو تم پاؤ وہی کرتے ہُوئے؟
رشِید حسرتؔ

0
75