| مُستزاد |
| تمہارے دل کا سرور میں تھا، غرور میں تھا |
| سدا رہا ہوں جو دور میں تھا، حضور میں تھا |
| جو رہ گیا تھوڑی آہ کر کے، کراہ کرکے |
| گلی کے نکّڑ پہ چور میں تھا، ضرور میں تھا |
| ہؤا تھا ہم پر بہت ضروری، رکھی تھی دوری |
| اسی لیئے بے قصور میں تھا جو دور میں تھا |
| بتاؤ تم کیا خطا مری تھی، عطا مری تھی |
| اگرچہ ایمنؔ کا طورؔ میں تھا، شعور میں تھا |
| چمن پہ جوں ہی نکھار آیا، سو ہار آیا |
| بتاؤں کیانا صبور میں تھا، عبور میں تھا |
| اسے دکھائے تھے جھوٹے سپنے کہ دل میں اپنے |
| رکھا تھا جس نے فتور میں تھا، سو عور میں تھا |
| رشید حسرتؔ میں کیا کرامت ہے استقامت |
| کہ اس کے چہرے کا نور میں تھا، وفور میں تھا |
| رشید حسرت |
| ٢١، اکتوبر ٢٠٢٥ |
معلومات