خُود اپنا ہاتھ بس تھامے ہُوئے مَیں رہ گیا ہُوں |
صدی کا دُکھ ہُوں جو آنکھوں سے اپنی بہہ گیا ہُوں |
کبھی بھی اور کِسی کا حق ہڑپ کرنا نہِیں ہے |
یہی بچّوں سے اپنے مرتے مرتے کہہ گیا ہُوں |
وہاں سے ہے غُلاموں کا کوئی جرّار لشکر |
مگر اِس سمت سے لڑنے کو مَیں اِک شہ گیا ہُوں |
یہ سچ ہے اپنے بچّوں کے لِیے تھا ایک ڈھارس |
چلا آیا ہے وہ طُوفان خُود پر ڈہ گیا ہُوں |
خُود اپنے آپ پر تنقِید کی ہے آپ مَیں نے |
کہُوں کیا آپ اپنی بات ہنس کر سہہ گیا ہُوں |
مزے لے لے کے پڑھتے ہو کُھلا خط ہُوں مَیں کوئی؟ |
کیا مشہُور اُس نے مَیں یہاں سے تہہ گیا ہُوں |
ہتھیلی میں سمویا اُس نے، اُس کو پیاس بھی تھی |
مگر حسرتؔ مَیں درزوں میں سے پِھر بھی بہہ گیا ہُوں |
رشِید حسرتؔ |
معلومات