سُورج پہ لا کے بوریا اپنا بِچھا دیا
پِھر یُوں کِیا کہ چاند کو تکیہ بنا دیا
زُہرا تو یُوں بھی ساتھ میں رہتا تھا ہر گھڑی
پِھر مُشتری لِحاف کی صُورت میں لا دیا
ہم بھی وہاں تھے سیر کو، ثاقِب شِہاب بھی
اُس کو ہٹا کے کہکشاں نے راستہ دیا
کھیلا خلا میں ہم نے تو لُک چُھپ کا کھیل بھی
کِتنے عطاردوں کا پسِینہ بہا دیا
ہم ہیں زمِین زادے سِتاروں پہ آ گئے
دیکھو تو پِرتِھوی کو یہ تحفہ نیا دیا
کہنے کو آسمانوں کی وُسعت میں جا بسے
بتلاؤ حُکمرانو! غرِیبوں کو کیا دیا؟
دیکھے ہیں لوگ روتے سِسکتے ہُوئے رشِیدؔ
بے وجہ کِتنے لوگوں کو سُولی چڑھا دیا
رشِید حسرتؔ

0
22