ستارے جھومتے ہیں کہکشاں میں |
کہیں کیوں شعر بازاری زباں میں |
بڑھائی ہیں حدیں بھی سلطنت کی |
کسی نے کھوئی شاہی اک بیاں میں |
عبارت میں ہو جیسے کوئی نقطہ |
رہا کردار اتنا داستاں میں |
تسلسل برقرار آفت گری کا |
پڑا جیسے شگاف اک آسماں میں |
نہیں دستار تو سر کیا کریں گے |
شمار اپنا سمجھ لو رفتگاں میں |
عصا کا معجزہ میراث میں ہے |
بدل دی آگ بھی تھی گلستاں میں |
حسینہ لے کے اتری ناز و عشوے |
شمار اس کا سبا کے شہ رخاں میں |
اسے مٹی کے بھاؤ بھی نہ جانوں |
جو شامل ہے نگر کے زر گراں میں |
عجب ہی شیوۀِ وعدہ خلافی |
رشیدؔ اب آ گیا ہے دلبراں میں |
رشِید حسرتؔ |
مورخہ ۰۷ مئی ۲۰۲۵ بوقت شام ساڑھے چھ بجے یہ غزل مکمل ہوئی۔ |
معلومات