کُھل گیا مجھ پہ وہ سب اپنے مفاہیم کے ساتھ
ملتا رہتا جو سدا پیار سے، تعظیم کے ساتھ
اور تو کچھ بھی محبت سے مرا کیا ناطہ
میری وابستگی رہتی ہے فقط میم کے ساتھ
ہم فقیروں کی طلب درس بِنا کچھ بھی نہیں
اُس کا آغاز ہے زر، خاتمہ ہے سِیم کے ساتھ
اس کی باتوں میں عجب ایک چبھن ہوتی ہے
آس کے بِیچ رہا ہوں تو کبھی بِیم کے ساتھ
جرمِ یکساں پہ غریبوں کو سزا دے قانوں
چھوٹ دیتا ہے امیروں کو یہ ترمیم کے ساتھ
شاہ مَیں ہوتا کسی ملک کا تو تاج لیئے
جا کے محبوب کے در بیٹھتا اقلیم کے ساتھ
اس نے اچھا ہی کیا مجھ کو رکھا دور، رشیدؔ
بیل انگور کی دیکھی ہے کبھی نیم کے ساتھ؟
رشید حسرتؔ
۲۹ اگست ۲۰۲۴

0
15