دِکھا ہے ایک چہرہ اوٹ میں سے
کھرا پایا ہے ہم نے کھوٹ میں سے
تُم اپنے ہاتھ کا دو زخم کوئی
سو پُھوٹے روشنی اُس چوٹ میں سے
خُوشی کے شادیانے بج رہے ہیں
چلا ہے گھوٹ کوئی گوٹ میں سے
سمجھ آئی نہیں ناکامیابی
کِیا تھا حل تو پرچہ نوٹ میں سے
نہِیں لے جا سکے گا، فکر چھوڑو
کوئی دُشمن تُمہیں باہوٹ میں سے
گُماں تھا ہم کو اِس میں نیکیاں ہیں
نِکل آئے گُنہ پر پوٹ میں سے
بڑے ہی شوق سے حِصّہ لیا تھا
نِکل آیا ہے کیا جِن ووٹ میں سے
وہ دِن گاؤں کے یاد آتے ہیں اکثر
غریبی جھانکتی لنگوٹ میں سے
چِھڑا جب شاعروں کا ذکر حسرتؔ
تُمہارا نام ہو گا کوٹؔ میں سے
رشِید حسرت۔

0
67