دِکھا ہے ایک چہرہ اوٹ میں سے |
کھرا پایا ہے ہم نے کھوٹ میں سے |
تُم اپنے ہاتھ کا دو زخم کوئی |
سو پُھوٹے روشنی اُس چوٹ میں سے |
خُوشی کے شادیانے بج رہے ہیں |
چلا ہے گھوٹ کوئی گوٹ میں سے |
سمجھ آئی نہیں ناکامیابی |
کِیا تھا حل تو پرچہ نوٹ میں سے |
نہِیں لے جا سکے گا، فکر چھوڑو |
کوئی دُشمن تُمہیں باہوٹ میں سے |
گُماں تھا ہم کو اِس میں نیکیاں ہیں |
نِکل آئے گُنہ پر پوٹ میں سے |
بڑے ہی شوق سے حِصّہ لیا تھا |
نِکل آیا ہے کیا جِن ووٹ میں سے |
وہ دِن گاؤں کے یاد آتے ہیں اکثر |
غریبی جھانکتی لنگوٹ میں سے |
چِھڑا جب شاعروں کا ذکر حسرتؔ |
تُمہارا نام ہو گا کوٹؔ میں سے |
رشِید حسرت۔ |
معلومات