Circle Image

Ghulam Muhammad

@GMKHAN

خموشی سے اتنا تو میں بھر گیا تھا
جو چیخا نہ ہوتا تو بس مر گیا تھا
زمانے میں عزت مری بڑھ گئی تھی
نکل کر گلی سے تری گھر گیا تھا
محبت کے مارے کیے کام ایسے
جو ہرگز نہ کرتا وہ بھی کر گیا تھا

25
ستاروں سے آگے کی باتیں کریں ہم
اسی کام میں صرف شامیں کریں ہم
بدل دے دلوں کی جو حالت ہماری
کسی سے تو یوں چار آنکھیں کریں ہم
زمانے کے غم بھی مٹا کر جو رکھ دیں
کوئی یاد ایسی بھی یادیں کریں ہم

0
16
محبت مری جو اثاثہ ہوئی ہے
یہ جذبات کا بھی خلاصہ ہوئی ہے
مرے دل کا نقشہ بڑا تھا سہانا
محبت ہی دل کا خرابہ ہوئی ہے
محبت سے پہلے تھا مایوس میں بھی
محبت ہی دل کا دلاسہ ہوئی ہے

0
13
وطن سے دور جا رہے ہیں لوگ کیوں
کہ ماں کو خود جلا رہے ہیں لوگ کیوں
وطن کو اپنے چھوڑ کر بھنور میں ہی
دیارِ غیر جا رہے ہیں لوگ کیوں
سبق پڑھا تھا سر اٹھا کے جینے کا
تو اپنا سر جھکا رہے ہیں لوگ کیوں

0
7
جہاں میں انجمن سی ہیں تری آنکھیں
قسم سے بانکپن سی ہیں تری آنکھیں
میں جاں اپنی بھی دلبر تجھ پہ واروں گا
مرے اچھے وطن سی ہیں تری آنکھیں
تری آنکھوں کی گہرائی بڑی دلکش
ترے ہی بانکپن سی ہیں تری آنکھیں

18
بن ترے مجھ کو کیا لگ رہی ہے
زندگی اک سزا لگ رہی ہے
بے وفا کو جو میں نے تھا چاہا
بس یہی اک خطا لگ رہی ہے
جان کر ہم شفا جس کو لائے
اب وہی اک وبا لگ رہی ہے

0
10
غزل
وہ گھڑی غم کی گھڑی ہے
جس میں وہ تنہا کھڑی ہے
جس کی خاطر چپ کھڑا ہوں
گفت گو پر وہ اڑی ہے
تھی تکبر سے بھری جو

0
23
مجبور دل پہ اتنا کبھی نہ زوال ہو
کھانے کو قورمہ ہو کھلانے کو دال ہو
کھالوں جو قورمہ تو ہضم بھی میں کر سکوں
محبوب ہی کے گھر نہ مرا انتقال ہو
شوق شکم پرستی نے رسوا مجھے کیا
ذوق شکم پرستی میں پھر بھی کمال ہو

32
محبت میں دھوکے بھی کھائیں گے ہمدم
دلوں کی یہ باتیں چھپائیں گے ہمدم
مرا دل رہا جو نہ قابو میں میرے
گلی میں تری یوں ہی جائیں گے ہمدم
خبر جو ملے گی کہ آئیں گے دلبر
تو گلشن بھی اپنا سجائیں گے ہمدم

0
41
فروعی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں
برے ہیں رذائل میں الجھے ہوئے ہیں
مرا ہے قبیلہ بھی افضل تیرے سے
انھی ہی فضائل میں الجھے ہوئے ہیں
ہے خصلت ہماری بھی اعلی سبھی سے
انھی ہی خصائل میں الجھے ہوئے ہیں

0
35
حبس کے موسم میں ہوا لانی ہوگی
آگ کے دریا میں گھٹا لا نی ہوگی
عارضے دیرینہ ہیں دل کے سبھی کو
ڈھونڈ کر کوئی بھی شفا لانی ہوگی
عارضہ دل کو جو ختم کر دے جڑ سے
ایسی تو کوئی بھی دوا لا نی ہوگی

0
18
کوشش ہے سب کی آٹا
منزل ہے سب کی آٹا
ہے صبح سب کی آٹا
ہے شام سب کی آٹا
ہے خواب سب کا آٹا
تعبیر سب کی آٹا

0
47
سبھی اس پہ یوں ہی نہیں تو فدا ہیں
بہاروں کے منظر الگ ہیں جدا ہیں
یہ قدرت کی ساری ہی منظر کشی ہے
یہ رنگوں میں لکھی ہوئی شاعری ہے
یہ سارے ہی رنگوں کے جو سلسلے ہیں
یہ فطرت کے جوبن کے تو سلسلے ہیں

0
23
تری جو آنکھوں میں نم نہیں ہے
مجھے بھی پھر کوئی غم نہیں ہے
بے درد لوگوں کے ساتھ رہنا
کسی اذیت سے کم نہیں ہے
جو شان دستار بن گئی تو
یہ جان دے کر بھی غم نہیں ہے

2
48
غزل
ہمیں سب خبر ہے کہ رہزن کہاں ہے
ہے یہ بھی پتا کے یہاں ہے وہاں ہے
یہاں کون لیڈر یہاں کون رہزن
قسم سے سبھی پر سبھی کچھ عیاں ہے
مرے دیس میں ہے عجب یہ روایت

0
16
گردشِ حا لات پہ رویا نہ کرو
اپنی ہی عا دات پہ رویا نہ کرو
فکر کرو اپنے وطن کی مری جاں
جنگ کا امکاں ہے یوں سویا نہ کرو
عقل کرو صاحب دانش بھی بنو
گیت سبھی کے یوں ہی گایا نہ کرو

42
ہر اک سے ہے پوچھا خسارہ ہے کیسے
ہر اک کو پتا ہے خسارہ ہے کیسے
خسارے سے جب بات آگے چلی تو
بتایا گیا پھر خسارہ ہے کیسے
خسارہ تھا پہلے خسارہ ہے اب بھی
سبھی جا نتے ہیں خسارہ ہے کیسے

0
26
غزل برائے تنقید و اصلاح
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
مرے ہمدم مرے دلبر کبھی یوں بھی نہیں ہوتا
مرا دلبر بنے پتھر کبھی یوں بھی نہیں ہوتا
اگرچہ حادثے کچھ کر بھی سکتے ہیں مگر پھر بھی
کوئی برتر بنے کمتر کبھی یوں بھی نہیں ہوتا

0
28
تری یادیں ستاتی ہیں مرے بچپن کے حاصل پور
ترے قصے سناتی ہیں مرے بچپن کے حاصل پور
میں تجھ کو یاد کرتا ہوں میں تجھ سے باتیں کرتا ہوں
تری یادیں لبھاتی ہیں مرے بچپن کے حاصل پور
میں جتنا دور جاتا ہوں تو اتنا پاس آتا ہے
تو مقناطیس جیسا ہے مرے ساجن کے حاصل پور

24
تجسس بڑھانا مرا کام ہے
بہت کچھ سکھا نا مرا کام ہے
جو سیکھا تھا میں نے پرانا ہوا
نیا پن سکھانا مرا کام ہے
ہیں بچوں کو درپیش مسلے بہت
مسائل گھٹانا مرا کام ہے

0
52
جو چہرے پہ اپنے ہے سہرے لیے
نصیبوں میں ہے درد دہرے لیے
کشش تھی بلا کی یہ ہونا ہی تھا
ا مڈ آئے ملا بھی گجرے لیے
جو برسوں سے تیرا طلب گار تھا
وہ جذبے ابھی بھی ہے سجرے لیے

0
31
زمانے میں اس کا چلن ہی جدا ہے
جدا ہو کے وہ مجھ کو پھر سے ملا ہے
وہ دنیا رواجوں میں جو کھو گئی ہے
اسی سے بغاوت یہ کرکے چلا ہے
سزائیں جفائیں سبھی اس نے جھیلیں
مروت میں پھر بھی وہ کرتا دعا ہے

0
31
غزل
مقدر میں جس کے فضا بن گئی ہے
وہ میری ہمیشہ دعا بن گئی ہے
جیوں جس کی خاطر زمانے میں تنہا
وہ میری ہمیشہ بقا بن گئی ہے
ملے مجھ کو راحت اسی کی طرف سے

0
50
مرے دل کی بستی فنا ہو گئی ہے
وہ ہستی جو مجھ سے جدا ہو گئی ہے
دلوں کے مرض یوں تو پھیلے نہ دیکھے
تسلسل میں اب یہ وبا ہو گئی ہے
اسے میں نے چاہا اسے میں نے پوجا
یہی تو فقط اک خطا ہو گئی ہے

0
42
خزاں کے زرد پتوں کی سی ہے قسمت مگر پھر بھی
نظارے ڈھونڈتے پھرنا کہاں آسان ہوتا ہے
قبیلے کے ہی سارے لوگ جب تنہا کریں تو پھر
سہارے ڈھونڈتے پھرنا کہاں آسان ہوتا ہے
ندی کے بیچ میں گرداب میں چکر لگا کر بھی
کنارے ڈھونڈتے پھرنا کہاں آسان ہوتا ہے

0
48
بدلے گا نظام یہ سارا خود
سبھی آس لگائے بیٹھے ہیں
کوئی بھی آ جائے طاقت میں
پلکوں کو بچھائے بیٹھے ہیں
آنکھوں کو جہاں پہ اٹھانا تھا
آنکھوں کو جھکائے بیٹھے ہیں

0
43
بڑا ہی عجب ایک آلہ ملا ہے
فدا اس پہ جاں ہے یہ جب سے ملا ہے
نہ ہمسر ہے کوئی بھی اس کا جہاں میں
جہاں سارا لگتا ہے اب یہ جہاں میں
مسائل کا اس میں جنم ہو گیا ہے
غضب کب غضب تھا غضب یہ ہوا ہے

0
46
نشانے بھی دشمن کے مجھ کو لگے پھر
چراغوں کو اپنے بجھا کر بھی دیکھا
سبھی آندھیوں نے جلایا ہے مجھ کو
ہواؤں سے دل کو لگا کر بھی دیکھا
ستمگر نہ جانے ستم کے سوا کچھ
وفاؤں میں خود کو جلا کر بھی دیکھا

0
35
ملیں جس کو ہم بھی بڑی چاہتوں سے
ضروری نہیں وہ ہمارا ہو جائے
جسے تم بھی چاہو بڑی چاہتوں سے
ضروری نہیں وہ تمہارا ہو جائے
سنبھل کر چلو تم بھی گرنے سے پہلے
ضروری نہیں وہ سہارا ہو جائے

0
41
یہاں تو ہر کوئی مطلب کی بات کرتا ہے
عجیب ہے وہ جو خدمت کی بات کرتا ہے
یہ زندگی تو محبت کے واسطے کم ہے
عجیب ہے وہ جو نفرت کی بات کرتا ہے
کمی تو کوئی نہیں ہے یہاں بھی مشرق میں
عجیب ہے وہ جو مغرب کی بات کرتا ہے

0
32
اصولوں پہ جب چل پڑے ہم تو سمجھو
نیا کچھ ہوا ہے الگ کچھ ہوا ہے
قطاروں میں جب چل پڑے ہم تو سمجھو
نیا کچھ ہوا ہے الگ کچھ ہوا ہے
کتابوں پہ جب چل پڑے ہم تو سمجھو
نیا کچھ ہوا ہے الگ کچھ ہوا ہے

39
میں جس راہ پر چل پڑا ہوں خوشی سے
بزرگوں کا میرے یہ رستہ نہیں تھا
چلن جو ہے میرا چلن یہ برا ہے
بزرگوں کا میرے چلن یہ نہیں تھا
عمل جو ہے میرا عمل یہ برا ہے
بزرگوں کا میرے عمل یہ نہیں تھا

0
34
تھی چاہت مجھے جس کی سب سے زیادہ
اسی نے ہی چاہت ادھوری میں رکھا
تھی قربت مجھے جس سے سب سے زیادہ
اسی نے مجھے بس یوں دوری میں رکھا
ملے تھے جسے ہو کے مخلص بہت ہم
اسی نے ہمیں جی حضوری میں رکھا

0
43
نفس کی نادانیاں
عشق کی رسوائیاں
قلب کی رنگینیاں
عقل کی حیرانیاں
خلق کی تابانیاں
جہل کی تاریکیاں

0
37
زندگی اچھی نہیں ہے
بن ترے کچھ بھی نہیں ہے
سادگی تیری پہ مرتے
یہ تجھے جچتی نہیں ہے
دل جلی تیری کہانی
مجھ کو سچ لگتی نہیں ہے

0
51
وطن میں اپنے ہی رہنا ہوگا
حقوق لینے پہ اٹھنا ہوگا
کمی نہیں ہے مرے وطن میں
کسی بھی شے کی یہ کہنا ہوگا
ہیں دنیا ساری میں سب سے آگے
یقین اس پر بھی رکھنا ہوگا

0
53
پرانے دور کے اندازے کام کے نہیں ہیں اب
جدید دور کے افسانے نام کے نہیں ہیں اب
پرانے دور کے میخانے کام کے نہیں ہیں اب
جدید دور کے ہنگامے نام کے نہیں ہیں اب
پرانے دور کے شکرانے کام کے نہیں ہیں اب
جدید دور کے ظہرانے نام کے نہیں ہیں اب

0
39
انداز کیسے بدلے زمانے کے
حیران ہیں نہیں ہیں بتانے کے
فن جانتے نہیں ہیں لبھانے کے
گر جانتے ہیں سارے ستانے کے
شیریں کلام ہم سے نہیں ہوتا
ماہر ہیں ہم فقط ہی لڑانے کے

52
خزاں کے زرد پتوں کی سی ہے قسمت مگر پھر بھی
نظارے ڈھونڈتے پھرنا کہاں آسان ہوتا ہے
قبیلے کے ہی سارے لوگ جب تنہا کریں تو پھر
سہارے ڈھونڈتے پھرنا کہاں آسان ہوتا ہے
ندی کے بیچ میں گرداب میں چکر لگا کر بھی
کنارے ڈھونڈتے پھرنا کہاں آسان ہوتا ہے

1
36
مرے ہمدم مرے دلبر کرو مجھ سے نئی باتیں
نئی باتیں سکھانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
مرے محبوب تیری ساری باتیں یاد ہیں مجھ کو
کئی یادیں مٹانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
یہ سناٹے تری یادوں کے مجھ کو ڈستے رہتے ہیں
نئے مرہم بنانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے

0
21
نہ ہارا ہوں میں اور نہ جیتا ہے دل بر
عجب ہو رہی ہے لڑائی ہماری
میں دل میں ہوں اس کے وہ دل میں ہے میرے
عجب ہو رہی ہے جدائی ہماری
رقیبوں نے مل کر دعا ہم کو دی ہے
عجب ہو رہی ہے دوائی ہماری

0
54
سمجھ کچھ نہیں آ رہی ہے مجھےتو
سمجھ گر لگے تو مجھے بھی بتانا
سنائی نہیں دے رہا ہے مجھے تو
تمہیں کچھ سنے تو مجھے بھی بتانا
دکھائی نہیں دے رہا ہے مجھے تو
تمھیں کچھ دکھے تو مجھے بھی بتانا

0
77
الہی قلم کو مرے کر رواں
الہی قلم سے میں نعتیں لکھو ں
الہی قلم میں یہ تاثیر دے
میں لکھوں تو بس میں بھی نعتیں لکھوں
خوشی تو ہے بننے کی شاعر مجھے
خوشی یہ بھی ہے کے میں نعتیں لکھوں

0
47
سبھی کہتے ہیں کہ استاد اچھے نہیں ہیں
کسی نے سوچا کہ کیوں اچھے نہیں ہیں
یہاں بنتے ہیں سبھی شوق سے افسر
افسر بھی ہیں کہتے استاد اچھے نہیں ہیں

0
44
یہ نغمے وطن کے بھی گاؤ خوشی سے
حقائق سے پردے اٹھاؤ خوشی سے
مرا یہ وطن ہے میں اس کا ہوں مالک
یہ احساس تم بھی جگا ؤ خوشی سے
مرے اس وطن میں ہو منشا بھی میری
مرے حکم کو تم نبھاؤ خوشی سے

0
38
ہر اک سے ہے پوچھا ذرا تم بتاؤ
یہ فصل تبسم کہاں ہم ا گائیں
ہر اک سے ہے پوچھا ذرا تم بتاؤ
یہ نغمے وفا کے کہاں ہم سنائیں
ہر اک سے ہے پوچھا ذرا تم بتاؤ
یہ دریا سخن کے کہاں ہم بہائیں

0
52
حال دل تجھ کو بتائیں کیسے
تجھ سے ہم خود کو بچائیں کیسے
کب سے تم ہم کو رلائے جاؤ
ہم یہ سب کو ہی بتائیں کیسے
سن کے تم ان سنی کردیتے ہو
سن سنا کے بھی سنائیں کیسے

0
27
تیرے جو دو سخا کی بات کروں
جسم بے سایہ کی میں بات کروں
تیرے سائے کے سائے کو ترسوں
نور خالق جہاں کی بات کروں
چاند ٹکڑے ہوا ترے کہے پر
میں تو مختار کل کی بات کرو ں

0
45
مقدر ہمارا بناتے تھے وہ
ہمیں آسماں پر بٹھاتے تھے وہ
شرافت دیانت سکھاتے تھے وہ
محبت کا خوگر بنا تے تھے وہ
ہمیں دیکھ کر مسکراتے تھے وہ
چمن میں ہمیں تو سجاتے تھے وہ

0
17
اندھیروں کو مٹایا جا سکتا ہے
چراغوں کو جلایا جا سکتا ہے
اگر اخلاص پیدا ہو سب میں تو
یہ گلشن بھی سجایا جا سکتا ہے

63
بچوں کے نتیجوں سے پریشان ہیں کیوں
اپنے ہی عوامل سے انجان سے کیوں
شکر جو ملائی نہیں پھولوں میں کبھی
گل قند بھلا نکلے نمک دان سے کیوں

37
مجھ سے میرا دوست بھلایا نہیں جاتا
میری آنکھوں سے ترا سایہ نہیں جاتا
خود سے دور میں ہو جاتا ہوں کئی بار
تجھ سے دور بھی مجھ سے جایا نہیں جاتا

62
وہ جاتے جاتے بتا کر نہیں گیا
وہ کوئی شکوہ سنا کر نہیں گیا
اداس سا وہ گیا احساں کر گیا
وہ گاتے گاتے رلا کر نہیں گیا

0
48
جدائی کا سبب ہم بتائیں کیوں
کہانی اپنی بھی ہم سنائیں کیوں
تری یادیں محبت کی یادیں ہیں
جوانی اپنی بھی ہم رلائیں کیوں

0
66
اس کے جانے سے گئی رونق ساری
جس کے ہونے سے تھی رونق ساری
اس کے جانے سے یہ جانا سب نے
بس اس کے دم سے تھی رونق ساری

48
کوئی جو تیری آنکھ کا تارا ہوتا
اس پہ میں نے اپنی جاں کو وارا ہوتا
تو جو میرا ساتھی اگر ہوتا خوش دل
خوش نصیبی تجھ کو میں نے چاہا ہوتا

0
48
کب کا وہ تو روٹھ چکا ہوتا
الفت سے اگر نہ باندھا ہوتا
میں کب سے اکیلا رہتا ہوتا
رشتوں نے اگر نہ جکڑا ہوتا
سر درد وہ نا ہو تا بے دردی
ہر وقت جسے نہ پکڑا ہوتا

0
45
نظمیں پڑھ کر مجھ کو خود بھی
نظمیں لکھنی آگئی ہیں

0
32
اندھیروں کو مٹانے کا ارادہ دیکھ کر
وہ روشنی میں ایک جگنو باندھ رکھا ہے

54
میرے اپنوں کو میرا ہونا اچھا نہیں لگتا
اپنوں کو مجھے تو کبھی کھونا اچھا نہیں لگتا
دل بیزار ہیں وہ سارے اچھے کاموں سے
ان کو جو اچھا لگے ہے مجھے اچھا نہیں لگتا

41
آپ بھی اتفاقا ہی ہوئے زاہد
ورنہ زاہد کوئی خود سے نہیں ہوتا

42
جو فطرت ہمیں نے بگاڑی تھی خود ہی
ؤہ فطرت ہمیں کر کے سیدھا رہے گی
جو دریا کے گھر کو اجاڑا تھا ہم نے
سو بدلہ وہ ہم سے بھی لے کر رہا ہے
نظام خدا کا یہ عادی ہے پانی
نظام خدا کو ہمیں نے ہے چھوڑا

50
تجھ سے مل کر یہی جانا مری جاناں
زندگی وہ جو تیرے ساتھ میں گزرے

49
گھر جو پانی کے گھر میں ہوگا پانی تو آئے گا
رستہ پانی کا رستہ ہو تو پانی تو آئے گا

41
ایک دریا میرے گھر رہنے لگا ہے
مجھ کو اپنے سے بھی ڈر رہنے لگا ہے
کاش میں بھی پنچھی کے جیسا ہی ہوتا
نسل انساں سے تو ڈر رہنے لگا ہے

39
پانی جو ذخیرہ کر لیتے
صحرا کو بھی جنگل کر لیتے
پھر بھوکا نہ سوتا کوئی بھی
خوش حال بھی سب کو کر لیتے

0
30
لگتا ہے خوں انسانی بہہ رہا ہے
چاروں جانب یوں پانی بہہ رہا ہے
ہم کو تو بے حسی نے جکڑا ہے
بےحس ہے آنکھ کب پانی بہہ رہا ہے

33
فکروں کی فکر کیوں کرے کوئی
اتنی بھی فکر کیوں کرے کوئی
جب بنا سوچے خوش ہیں سارے تو
مفت کی فکر کیوں کرے کوئی

0
38
سنے تھے جو قصے بزرگوں سے ہم نے
وہ قصے بھی ہم کو بھلانے پڑیں گے
عمارت نئی جو بنانی ہو ہم کو
تو بنیاد پھر سے بنانی پڑے گی
نہایت ادب سے گزارش ہے میری
وہ رستے پرانے مٹانے پڑیں گے

35
میری دعا ہے میرا وطن یہ
روشن ستاروں کی طرح چمکے
میرے خدا میرے اس وطن میں
کوئی نا راتوں کو بھوکا سو ئے
میرے وطن کی یہ ارض مقدس
قرآن وسنت کی سرزمیں ہو

0
58
ملے تھے جب بھی ان سے ہم ہوئے تھے خود سے اور تنہا
اگر نہ ملتے ان کو ہم تو خود کے ساتھ رہتے ہم

0
32
چلو پھر سے ہم پڑھانے لگتے ہیں
ایسا کرنے میں زمانے لگتے ہیں
روٹھنے والوں سے ملتا کون ہے
چلو ہم ان کو منانے لگتے ہیں

0
43
ہاتھوں میں ہاتھ دیا کرتے ہیں
سچوں کا ساتھ دیا کرتے ہیں
آندھی جتنی بھی چھا جائے ہر سو
چراغوں کا ساتھ دیا کرتے ہیں

43
بہانے بنانے کوئی تم سے سیکھے
وفا کے ترانے کوئی تم سے سیکھے
اشاروں سے آنکھوں کے توڑو ہو دل تم
غضب کے نشانے کوئی تم سے سیکھے

38
سیدھا چلو گے دقت تو ہوگی
سب کے بنوگے دقت تو ہوگی
سب کے جو ہوگے کچھ بھی نا ہوگا
اپنے بنو گے دقت تو ہوگی

40
غلطی جو کرے گا وہ پریشان بھی ہوگا
قانون جو ہوگا تو چالان بھی ہوگا
نا کرنا کبھی بھی تو نقصان کسی کا
نقصان کرے گا تو نقصان بھی ہوگا

1
36
کچھ بھی ایسا مت کیا کیجئے
خود کا برا مت کیا کیجئے
کرنا پڑے جو کچھ بھی برا
برا بالکل مت کیا کیجئے

53
تری بزم میں ہم جو بیٹھے رہے
تمنا تھی دل کی سو بیٹھے رہے
بڑی دیر تک ہم رہے سوچتے
وہ تھی سوچ میری سو بیٹھے رہے

0
39
خوشی سے چور ہوتی جا رہی ہے
وہ ہم سے دور ہوتی جا رہی ہے
مرے ارمانوں پر پھیرکر پانی
بھنور سے دور ہوتی جا رہی ہے

0
32
یہ دنیا ساری ہمارے قصے ہی گاتی رہتی
کبھی جو ہم تم اداس رہتے تو ایسا ہوتا
بنا م طاقت یہ ناتوانی بھی کچھ جو کہتی
غلام ہم جو عذاب سہتے تو ایسا ہوتا
کوئی بھی رستہ وہ منزلوں کا نکال دیتے
اداس نسلوں سے ہم جو ملتے تو ایسا ہوتا

0
70
ریاست سے ٹکر کبھی تو نے لی تو
کھلے گا یہ عقدہ کہ ہے کیا ریاست
سیاست میں رکھا قدم جو کبھی تو
کھلے گا یہ عقدہ کہ ہے کیا سیاست
صحافت میں رکھا قدم جو کبھی تو
کھلے گا یہ عقدہ کہ ہے کیا صحافت

0
49
کرتے ہیں سارے بہت اچھی باتیں
کردار کو اچھا کیوں نہیں کرتے
لڑتے ہیں ساری عمر بے مقصد
مقصد کی خاطر کیوں نہیں لڑتے
جہل کے رستوں کے شیدائی
علم کے رستوں پہ کیوں نہیں چلتے

0
37
گھر جو سب کے پکے ہوتے
گرنے کے نا دھڑکے ہوتے
تم سے ہم بھی ملتے ہوتے
تم جو ہم کو ملتے ہوتے
کرتے ہم بھی ان سے شکوہ
وہ جو ہم پر مرتے ہوتے

0
31
بارشوں سے ہم تھک چکے ہیں اب
اے مرے خدا رحم کردے اب
بارشوں سے ہر سمت پانی ہے
اے مرے خدا رحم کر دے اب
بارشوں نے نقصان کر دیا
اے مرے خدا رحم کر دے اب

0
37
بارشوں کے موسم میں ہم بھٹکتے رہتے ہیں
دل کہیں پہ رہتا ہے ہم کہیں پہ رہتے ہیں
بارشوں کے موسم میں ہم سلگتے رہتے ہیں
دل کہیں پہ جلتا ہے ہم کہیں پہ چلتے ہیں
بارشوں کے موسم میں ہم بکھرتے رہتے ہیں
دل کہیں بکھرتا ہے ہم کہیں بکھرتے ہیں

0
55
سوچتا ہوں بولوں مگر بول کر بھی کیا کروں گا
دل کا درد کھولوں مگر کھول کر بھی کیا کروں گا
سنتا کون ہے یہاں پر بول کر کیا کروں گا
درد دل کے واسطے رو کر بھی میں کیا کروں گا

0
50
یہ بزمِ محبّت جو بیٹھی ہوئی ہے
محبت سے ان کی یہ مجلس سجی ہے
محبت سے پیغام اس کا ملا تھا
محبت سے سارے ہی آئے ہوئے ہیں
محبت سے نفرت کو ہم مات دیں گے
محبت نبھانے ہی آئے ہوئے ہیں

0
77
مصمم ارادے سے کی میں نے ہجرت
گناہوں کو چھوڑا ہے نیکی کی خاطر

0
57
رم جھم برسے ہے ساون
چاہت تیری ہے ساون
بادل برسے ہے ساون
یادیں تیری ہے ساون
خوشبو برسے ہے ساون
آنکھیں تیری ہے ساون

103
کریں گے برا تو برا ہوگا ہم سے
جو اچھا کریں گے تو اچھا ہی ہوگا
نہیں دیکھا میں نے کبھی روتا اس کو
رلایا نہ ہو جس نے خود بھی کسی کو
کھلانا پلانا اجر تم کمانا
کبھی بھی کسی پر نا تہمت لگانا

0
102
سچ کی اب تد فین کا سوچا جائے
راز اب اس کی موت کا کھوجا جائے

0
33
کاہے کو بتائے اصلیت اپنی
سچ سامنے آجائے برا لگتا ہے

0
50
جگنو تو کب کے روٹھ گئے ہم سے
بلبل بھی اب تو روٹھی سی لگتی ہے

0
60
طرز سخن کی یہ ہوتی ہے بڑی خوبی
نقص سخن کوئی رہنے جو نہیں دیتے

0
52
بد دلی سے وہ سنے تو خاک سمجھے میرا فرمان
بات میری وہ سمجھنا چاہے تو آساں بہت ہے

0
80
ہونے کا ہونا ہی تو اصل ہونا چاہیے
ہونے کے ہونے کا عنوان ہونا چاہیے

0
38
خوشی تھی کہ آئے گی عیدی کسی دن
ملے گی محبت سے عیدی کسی دن
یہ دنیا تھی کیا اور کیا ہو گئی ہے
وفاؤں سے بالکل ہی خالی ہوئی ہے
بھرم تھا جو پہلے ختم ہو رہا ہے
ملی ہم کو کس جرم کی یہ سزا ہے

0
51
ذبیحہ کا ہم جو ارادہ کریں
یہ وعدہ کریں پھر یہ وعدہ کریں
چلیں ہم کریں آج سے کچھ نیا
سخاوت کریں اور عبادت کریں
عبادت خدا کی سخاوت بھی ہے
طریقت یہی ہے شریعت یہی

0
72
وطن کا نوحہ
وطن کا مرے جو تماشا ہوا ہے
ملی ہم کو اپنے کیے کی سزا ہے
عمل سے ہیں خالی جو سارے کے سارے
دعاؤں پہ ہم نے گزارا کیا ہے
چلے گا وطن یہ ہمارا تو کیسے

1
65
خود کلامی
مخاطب تو اپنے سے ہو تو لیا کر
کبھی خود سے باتیں تو کر تو لیا کر
ستاروں میں ہر وقت کھویا رہے تو
زمیں پر کبھی تو بھی رہ تو لیا کر
کرے دوسروں سے نصیحت کی باتیں

0
73
سونے جیسی عمر میں اکثر
لوہے جیسے کام ہیں کرتے

0
36
چاند جیسا جب سے کہہ دیا ان کو
ہوگئے وہ چاند اور چاند عید کا

0
35
سردیوں میں بارشوں کے دن ہیں
بن تیرے اداسیوں کے دن ہیں
کیا بتلاؤں کس طرح کے دن ہیں
نا تمام سی خواہشوں کے دن ہیں
کرنیں سورج کی دیکھنے کو ترسوں
کالے کالے بادلوں کے دن ہیں

0
59
میں تو دنیا دیکھ لیتا
تجھ میں جو نا کھویا ہوتا

0
40
بونوں کے سماج میں اکثر
قد والوں کو جینے نہیں دیتے

0
51
اس کو تصور میں بسایا تو
اس نے تصویر بدل ڈالی

0
69
پتھر کے خداؤں سے لڑائی ہے
شیشے کی جبیں کے سہارے میری

0
71
عشق میں ناکامی کیسی ہوتی ہے
ادھ پڑھی کتاب جیسی ہوتی ہے

0
41
کیا سنائیں ہم دل کے درد خانے کی
کوئی اس میں روز زہر ڈال دیتا ہے

0
41
بیٹھے بیٹھے گم ہونے لگتا ہوں
اب تو خود سے تم ہونے لگتا ہوں

0
47
اچھی لگتی ہے حق بات وہی
جو ہمارے حق میں اچھی ہو

0
64
ہم بگڑتے رہتے ہیں
زندگی کے آنچل میں
ساتھ کوئی رہتا ہے
دل کے ہر بکھیڑے میں
غم پنپتے رہتے ہیں
بے دلی کے موسم میں

0
58
بستی میں جب رہتے تھے
دل ہی دل میں کہتے تھے
شہر میں جب ہم جائیں گے
پھر نہ بستی آئیں گے
شہر میں اب ہم رہتے ہیں
اور بستی کو ترستے ہیں

0
59
نئے زمانے میں تم جو ہم کو پرانی باتیں سنا رہے ہو
عجیب لگتے ہو تم بھی آخر یہ سب جو ہم کو سنا رہے ہو
دلوں کے قصے دلوں کے نغمے جو ہم سے تم بھی چھپا رہے ہو
سمجھ کے بچے بھولے ہم کو جو ہم کو تم یوں ڈرا رہے ہو
وفا کی باتیں جفا کی باتیں بتاں کی باتیں سزا کی باتیں
تمہاری باتوں سے لگ رہا ہے کبھی جو تم بھی خدا رہے ہو

0
60
انسان جو بہتر کرنے ہوں
استاد کو بہتر کرتے ہیں
اسکول جو بہتر کرنے ہوں
انداز کو بہتر کرتے ہیں
ٹعلیم سے دامن بھرنے ہوں
اخلاق کو بہتر کرتے ہیں

0
46
اک خواہش میری اتنی ہے
میری بستی بستے بس جائے
شہروں میں جب سے رہتے ہیں
کیوں بستی بستی کہتے ہیں
شہروں میں کیوں گمنامی ہو
جب بستی میری اپنی ہو

0
60
ایک نظم والدین کی محبت میں
میرا بابا میرا سب کچھ
میری مما میری سب کچھ
پہلے دن سے اب تک ساری
میری جیون دھارا ان سے
دولت عزت شہرت رتبہ

0
43
کام سے دل لگی ہو گئی ہے مجھے
عمر سے دوستی ہوگئی ہے مجھے

0
34
سچ کہنا اور سکھی رہنا
نا ممکن ہے بھئی ناممکن

0
26
دیکھا جو کبھی اس کو ہوتا
ہم اس کے خیالوں تک جاتے
جانچا جو کبھی اس کو ہوتا
ہم اس کے کمالوں تک جاتے
پرکھا جو کبھی اس کو ہوتا
ہم اس کے حسابوں تک جاتے

0
32
کوئی بات ہوتی تو ہم بات کرتے
تری بات میں ہم کیا بات کرتے

0
38
ہنس ہنس کے جیتا ہے کبھی رو بھی لیا کر
دل کب میری سنتا ہے کبھی رو بھی لیا کر
سج دھج کر جو سر تا پا پھر بھی رہے میلا
دل میلا ہے اس کو کبھی دھو بھی لیا کر

0
35
وفا اخلاص قربانی الفت یوں
بہت کچھ دیکھ کر ہم بھی روئے پھر

0
39
پھولوں کی تمنا ہوتی ہے بڑی خوش کن
منزل پہ پتا چلتی ہے کانٹوں کی قیمت

0
35
تو گلے جو لگاتا ہے اسے وقت بے وقت
تیری یہ عادت اسکو سدھرنے نہیں دیتی

0
71
مسافر تمنا لئے جا رہا ہے
سفر کی یہی اک وجہ ہے

0
45
جھوٹوں سے الفت ہم کو ہے
سچ میں ہم سچ کے قاتل ہیں

0
46
مرے دیس کے سارے جھوٹوں سے
مجھے سچ کی توقع ہوتی ہے

0
29
نفرت میں ہے ناں الفت میں ہے
ہر شخص عجب حالت میں ہے
حاجت میں ہے ناں راحت میں ہے
ہر شخص عجب حالت میں ہے
قربت میں ہے ناں فرقت میں ہے
ہر شخص عجب حالت میں ہے

0
41
نظم کا عنوان "ہمارے افسر"
جب سے افسر ہمارے بنے وہ
تب سے ہم بھی عجب حال میں ہیں
وہ جو کرتے بھلا ہیں سبھی سے
وہ بھلا ہم سبھی جانتے ہیں
ان کے دفتر میں جب بھی گئے ہم

0
40
نہ جانے مرے دل کو یہ کیا ہوا ہے
یہ دل ہے مرا تو ترا کیا ہوا ہے
مرا دل مرا تھا مرا اب نہیں ہے
مرے دل پہ قبضہ ترا کیا ہوا ہے
لگے جو خبر تو مجھے بھی بتانا
مرا دل یہ آخر ترا کیا ہوا ہے

0
47
ولادت لڑکپن جوانی بڑھاپا
یہی زندگی کی کہانی ہمیشہ
محبت کے مارے محبت میں خوش ہیں
یہی دلبروں کی کہانی ہمیشہ
مرا غم اثاثہ مرا ہے مرا ہے
یہی غم زدوں کی کہانی ہمیشہ

0
44
نہ جانے مرے دل کو یہ کیا ہوا ہے
یہ دل ہے مرا تو ترا کیا ہوا ہے
مرا دل مرا تھا مرا اب نہیں ہے
مرے دل پہ قبضہ ترا کیا ہوا ہے
لگے جو خبر تو مجھے بھی بتانا
مرا دل یہ آخر ترا کیا ہوا ہے

0
47
زندگی بن ترے کچھ نہیں کچھ نہیں
جان جاں بن ترے کچھ نہیں کچھ نہیں
تو جو بازار میں آج آیا نہیں
آج بازار میں بن ترے کچھ نہیں
دل جگر جان من چاہتا تجھ کو ہے
دل نشیں ہم سفر بن ترے کچھ نہیں

0
47
ابتدا سے وہ ہے ہر شئے میں وہ ہے
رات دن اس کے ہیں صبح و شام اس کے ہیں
کائنات اس کی ہے کہکشاں اس کی ہے
آسماں اس کے ہیں ہر زمیں اس کی ہے
دو جہاں اس کے ہیں سب جہاں اس کے ہیں
ہر کوئی اس کا ہے سب کرم اس کے ہیں

0
24
بھلا ہو ہمارا بھلا کیسے ممکن
نہ رہبر ہمارا نہ قائد ہے کوئی
کوئی ہم کو یک جا جو کرنے لگے تو
اسے ہی جدا سب سے کرتے ہیں پہلے
بڑی بھول ہے یہ ہماری بزرگو
نہیں ہم کبھی بھی بڑوں سے بڑے ہیں

0
65
محبت پہ روئے جوانی پہ روئے
بہت ہم ہماری کہانی پہ روئے
کہانی ہماری الگ تھی جہاں سے
سبھی بس ہماری کہانی پہ روئے
کہانی ہماری غموں سے بھری تھی
غموں میں غموں کی روانی پہ روئے

0
34
تعارف مری یہ ریاست مری ہے
نہیں کچھ میں اس بن نہیں کچھ نہیں ہوں
فریضہ مرا ہے کہ میں کچھ تو لکھوں
ریاست کہانی بہاول کہانی
زمانے میں سب سے جدا تھی یہ کیا تھی
ترقی میں علم و ادب کی فضا تھی

0
29
رواجو ں سے ترک تعلق ہے مشکل
بڑا اس سے مشکل نبھانا ہے ان کو
عجب ہیں مرے یہ مسائل کے قصے
مسائل سے مشکل بھلانا ہے ان کو
خیالوں کی دنیا میں ہوتے ہوئے بھی
حقیقت سے مشکل رلانا ہے ان کو

0
43
محبت مروت سلامت نہیں ہے
کروں جو ٰعداوت ضرورت نہیں ہے
ستمگر سے کہہ دو ستم نا کرے اب
مرے دل کا جذبہ بغاوت نہیں ہے
بڑا تجھ کو مانا بڑا تو نہیں تھا
حقیقت یہی ہے عداوت نہیں ہے

0
45
درختوں سے ہر سو عجب رنگ بھرے تھے
تحفظ میں سارے ہی چھوٹے بڑے تھے
علامت تھے اشجار پھولوں پھلوں کے
خوشی کے ندی کے ہوا کے فضا کے
ہمارا تو مذہب ہمیں ہے سکھاتا
شجر جو لگاؤ اجر تم کماؤ

0
36
دلبری عاشقی ان کہی شاعری
زندگی روبرو بن ترے کچھ نہیں
دل ترا جاں مری تو مری گل جبیں
اے مرے ہم سفر بن ترے کچھ نہیں
چشم نم یہ مرا درد دل ہی تو ہے
اےمرے ہم نشیں بن ترے کچھ نہیں

0
42
نصابی کتابیں ہیں فرضی کتابیں
مسائل کا حل ان میں کوئی نہیں ہے
مسائل ہیں بچوں کو درپیش جو بھی
انہیں ہی مسائل کا چرچا نہیں ہے
ہے فرضی مسائل کا ذکر ان میں ہر جا
حقیقی مسائل کا چرچا نہیں ہے

0
29
کل اور آج
تب بھی حالات اچھے نہ تھے
اب بھی حالات اچھے نہیں
تب بھی پینے کو پانی نہ تھا
اب بھی پینے کو پانی نہیں
تب بھی تھی مفلسی چار سو

0
27
جو الفت میں مانگا تھا یہ وہ نہیں ہے
جوسپنوں میں دیکھا تھا یہ وہ نہیں ہے
مرے دل پہ قبضہ تھا جس کا ازل سے
میں جس دل میں رہتا تھا یہ وہ نہیں ہے
جسے دیکھنے کو مری ہی گلی میں
مرا دل تڑپتا تھا یہ وہ نہیں ہے

0
35
اٹل ہے یہ قانون قدرت اٹل ہے
اگے کا وہی جو کہ بویا ہوا ہے
ترے عشق میں وہ جو پاگل ہوا ہے
ترے ہی ستم کا ستایا ہوا ہے
ترے سامنے وہ جو بہکا ہوا ہے
اثر تیری مے کا یہ چھایا ہوا ہے

0
65
دعا تھی یہ مانگی کہ بارش ہو یا رب
دعا تھی لبوں پر ہوئی کھل کے بارش
کرم ہو گیا ہے خدا کی عطا سے
گدا خوش ہوا ہے ادائے دعا سے
لگا ہے دعا سب کی پوری ہوئی ہے
ترے حکم سے کھل کے بارش ہوئی ہے

0
27
دعا گو خدایا یہ بندے ترے ہیں
ترے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں
نہ فریاد تیرے سوا ہے کسی سے
ہے فریاد بس اک تجھی سے تجھی سے
عبادت سخاوت ترے نام کی ہے
ہمیں ساری چاہت ترے نام کی ہے

0
72
ہمارا جگر اب ہمارا کہاں ہے
ہمارا جگر اب تمہارا ہوا ہے
مرے حوصلوں میں اضافہ ہوا ہے
تمہارا جو ہم کو سہارا ہوا ہے
بہت خوش ہوئے ہیں معانی سے اس کے
تمہارا جو ہم کو اشارہ ہوا ہے

0
76
سبھی کچھ تو کہنا مگر یہ نہ کہنا
زمانہ برا ہے کبھی یہ نہ کہنا
ہمارا ہی چہرا ہمیں ہے دکھاتا
یہ شیشہ برا ہے کبھی یہ نہ کہنا
مری آرزو ہے مری جستجو ہے
تو عادت ہے میری کبھی یہ نہ کہنا

0
72