Circle Image

Ghulam Muhammad

@GMKHAN

روایت توڑ بیٹھے ہیں
کتابیں چھوڑ بیٹھے ہیں
پڑھے گا کون اب ان کو
کتابیں جھوٹ لگتی ہیں
پڑھا بھی دیں اگر ساری
عمل پھر کون کرتا ہے

0
3
خطوط سارے جلا دیے ہیں
معاشقے بھی بھلا دیے ہیں
بنا پھلوں کے کھڑے تھے جو بھی
شجر وہ بوڑھے کٹا دیے ہیں
نہیں تھا جن کا کوئی بھی معنی
حروف ایسے مٹا دیے ہیں

0
5
خطوط سارے جلا دیے ہیں
معاشقے کے بھی بھلا دیے ہیں
بنا پھلوں کے کھڑے تھے جو بھی
شجر بھی سارے کٹا دیے ہیں
نہیں تھا جن کا کوئی بھی معنی
حروف سارے مٹا دیے ہیں

5
سمندر میں اترنا چاہتا ہوں
میں اب تجھ سے بچھڑنا چاہتا ہوں
یوں شوق دل لگی میں بارہا اب
نہیں تتلی پکڑنا چاہتا ہوں
رہا میں عالم مستی میں چلتا
مگر اب تو میں رکنا چاہتا ہوں

0
9
وہ راز محبت چھپا بھی ٰرہی ہے
وہ راز محبت بتا بھی رہی ہے
کیے تھے جو اس نے محبت میں وعدے
سبھی کے سبھی وہ نبھا بھی رہی ہے
چلے اس کے نقش قدم پر ہے یوں وہ
کہ نقش قدم وہ مٹا بھی رہی ہے

0
15
کبھی ہم کو ان سے محبت ہوئی تھی
نہ ان سے کوئی پھر شکایت ہوئی تھی
وضاحت کروں اس میں لمحے کی کیسے
اچانک جو ان کی زیارت ہوئی تھی
جو گزرے تھے لمحے رفاقت میں ان کی
لگے مجھ کو یوں کہ عبادت ہوئی تھی

0
6
سیاست میں یہ کیا مقام آرہے ہیں
یوں لگتا ہے الٹے چلے جا رہے ہیں
یوں لگتا کہ مجرم سبھی ہیں یہاں پر
تبھی تو سبھی ہی سزا پا رہے ہیں
سرابوں کی بستی کے سب رہنے والے
خوشی سے ہی دھوکے سبھی کھا رہے ہیں

0
8
عشق بھی تو کمال کرتا ہے
جینا آخر محال کرتا ہے
عقل کہتی ہے تو سنبھل کے چل
عشق کا دل خیال کرتا ہے
اس کی آنکھیں ہمیں بتاتی ہیں
کوئی ان سے سوال کرتا ہے

0
4
گئے دنوں کا ملال ہوتا
تو رابطہ کچھ بحال ہوتا
تمھارا ہر دم خیال ہوتا
خوشی سے میں تو نہال ہوتا
خلوص ہوتا جو چاہتوں میں
تو چاہتوں میں کمال ہوتا

12
بارشوں کا موسم ہے
چاہتوں کا موسم ہے
رات بھر جگا ہوں میں
سازشوں کا موسم ہے
ساتھ اس کا چاہوں میں
قربتوں کا موسم ہے

0
9
محبت کی دنیا بسانے لگے ہیں
حقیقت میں نفرت مٹانے لگے ہیں
جسے ہم نے آنکھیں ملانا سکھایا
ہمیں سے وہ آنکھیں چرانے لگے ہیں
جسے ہم نے ڈھونڈا بڑی چاہتوں سے
کسی اور کا گھر بسانے لگے ہیں

0
10
موڑ نازک سے گزر کیوں نہیں جاتے
اتنا ڈرتے ہو تو گھر کیوں نہیں جاتے
اپنی مرضی سے پرندے سبھی اڑتے
دیس کو چھوڑ شجر کیوں نہیں جاتے
اپنی چاہت سے اگر جی نہیں سکتے
اپنی مرضی سے وہ مر کیوں نہیں جاتے

0
6
حال دل کیسے کہوں
جیسے ہے ویسے کہوں
وہ مرا بن کے رہے
ایسے بھی کیسے کہوں
گل بدن ساتھی مرا
ساتھی کو ایسے کہوں

0
14
سبھی نے بتایا
سمجھ کچھ نہ آیا
بھروسہ تھا جس پر
اسی نے ستایا
جسے دی محبت
اسی نے رلایا

0
8
عجیب چکر چلا رہے ہیں
زمیں فلک سے ملا رہے ہیں
کبھی نہ ایسا کسی نے دیکھا
وطن کو جیسے چلا رہے ہیں
کوئی تو ایسی پڑی ضرورت
جو ہاتھ سب سے ملا رہے ہیں

0
17
ایک مدت سے ہم سفر میں ہیں
چل رہے ہیں مگر بھنور میں ہیں
جس نظر کی سبھی کو خواہش ہے
ہم مسلسل اسی نظر میں ہیں
بھول پن میں پتہ نہیں چلتا
خوبیاں ساری اک بشر میں ہیں

0
12
دل میں تیرے رہ رہا ہوں
غم بھی تیرے سہ رہا ہوں
تو ہی میری زندگی ہے
سب سے میں یہ کہہ رہا ہوں
شہر تیرا چھوڑ کر بھی
شہر تیرے رہ رہا ہوں

0
11
ساری دنیا کے غم ہمارے ہیں
کام سب کے اگر سنوارے ہیں
عشق تیرے میں ہم رہے بے خود
ایسے دن ہم نے بھی گزارے ہیں
تیرے قدموں سے جو لگے پتھر
ہم کو پتھر بھی وہ ستارے ہیں

0
12
ہم کیسے جی رہے ہیں
خود زہر پی رہے ہیں
کس طرح ہم یہ کہتے
ہم ہونٹ سی رہے ہیں
جب سے ہے آنکھ کھولی
تنگ دست ہی رہے ہیں

10
گلاب رت میں جلا دیا ہے
یہ کیسا تو نے صلہ دیا ہے
یہ رنجشیں بھی عجیب ٹھہریں
کہ غم بھی سہنا سکھا دیا ہے
جو قرض تیرا تھا مجھ پہ واجب
وہ جان دے کے چکا دیا ہے

0
10
کب کوئی درد آ کے جاتا ہے
اب تو شہروں سے خوف آتا ہے
کوئی ملتا نہیں کسی سے اب
ہر کوئی اپنے گھر کا کھاتا ہے
حال دل کا کسے سنایئں ہم
ہر کوئی بہرا ہوتا جاتا ہے

13
بڑی مشکل آسان کر لی گئی ہے
تمنا ہی ہلکان کر لی گئی ہے
محبت کے جذبوں کا یہ ہے نتیجہ
شناساں وہ انجان کر لی گئی ہے
کہا اس کا مانا غلط بھی ہے ہم نے
انا اپنی قربان کر لی گئی ہے

13
علاج غم محبت کی فراوانی سے ملتا ہے
سبق کچھ سیکھنے کو ایک نادانی سے ملتا ہے
کسی درویش سے ملتے علاج روح کی خاطر
سکون دل کہاں دنیا میں سلطانی سے ملتا ہے
یہ دریا کی روانی بھی ہے پیغام عمل پیہم
سبق کوئی جو سیکھے تو یہ آسانی سے ملتا ہے

0
18
محبت ہمیں وہ سکھایا کرے گا
دل و جان لے کے رلایا کرے گا
جو قسمت نے لکھ دی لڑائی کبھی تو
لڑائی میں ہم کو منایا کرے گا
جو پوچھا کسی نے علاج محبت
مرا ہی پتہ وہ بتایا کرے گا

0
27
کبھی ان سے ملاقات ہو جاتی
محبت کی شروعات ہو جاتی
محبت کے سوالی کی وہ چاہت
سوالوں کے جوابات ہو جاتی
بھری محفل میں چپ چاپ بیٹھا ہوں
مری چپ ہی بیانات ہو جاتی

0
11
ملا کے وہ آنکھیں چلا ہی گیا تھا
ہمیں تو قسم سے جلا ہی گیا تھا
اسےدیکھ کر ہم سنبھل ہی نہ پائے
وہ خطرے کی گھنٹی بجا ہی گیا تھا
ہمیں خود پہ قابو رہا نہ قسم سے
شراب ایسی ہم کو پلا ہی گیا تھا

0
9
علاج غم یہی ہے اب
علاج غم کبھی نہ ہو
جو خواب دن میں دیکھ لے
وہ آنکھ نم کبھی نہ ہو
ستم کرے جو بے وجہ
مرا صنم کبھی نہ ہو

0
11
مسلسل مجھے در بدر کر رہی ہے
کہ چاہت تری مجھ میں گھر کر رہی ہے
مریض وفاتھے شب غم نے مارا
علاج شب غم سحر کر رہی ہے
ستاروں سے آگے نکل ہم بھی جاتے
کہ الٹا ہی منزل سفر کر رہی ہے

2
28
مسلسل مجھے در بدر کر رہی ہے
کہ چاہت تری مجھ میں گھر کر رہی ہے
ہیں روئے تمھارے لیے آج اتنا
علاج شب غم سحر کر رہی ہے
سوائے ترے مجھ کو کوئی نہ بھائے
رفاقت تری یوں اثر کر رہی ہے

14
الہی کو دکھڑے سنا کے تو دیکھو
نصیبوں کو اپنے بنا کے تو دیکھو
ملے گا سکوں تم کو بے حد زیادہ
ندامت کے آنسو بہا کے تو دیکھو
ملے گا تمھیں حد سے زائد منافع
تجارت خدا سے بنا کے تو دیکھو

0
12
رواجوں کی دنیا میں ہم رہ رہے ہیں
بنا ہی خطا کے سزا سہ رہے ہیں
قصور اس میں اپنا کوئی بھی نہیں ہے
اندھیرے میں ہم سب یہی کہہ رہے ہیں
جو بویا تھا ہم نے وہی تو ہے کاٹا
یوں قدرت کے جنگل میں ہم رہ رہے ہیں

0
8
ترے دل کا مسکن بھی مہنگا پڑا ہے
تمہیں چھوڑ کر غم ہی سہنا پڑا ہے
تمھارے بنا ہم ادھورے ہیں جانم
ہمیں تم سے اکثر یہ کہنا پڑا ہے
ترے دل کے خیمے کو آباد کر کے
اکیلے بھی ہم کو ہی رہنا پڑا ہے

0
12
بدلے میں محبت کے محبت کہاں ملتی ہے
ہم اہل محبت کو یہ دولت کہاں ملتی ہے
یہ بات الگ ہے کہ ہمیں بھول گئے ان کو
یادوں میں بسا کر بھی قرابت کہاں ملتی ہے
اس دور ترقی میں ہوا ہے سبھی کچھ الٹا
سچائی کے بدلے میں صداقت کہاں ملتی ہے

0
13
وطن کو جو رہنے کے قابل بناتے
نہ یوں نو جواں چھوڑ کر اس کو جاتے
کتابوں کی تقدیس جو ہم سکھاتے
تماشا نہ دستور کا یوں بناتے
بہاروں کے موسم خزاں یوں نہ ہوتی
جو گلشن کو اپنے سبھی ہم سجاتے

0
11
کوئی نرمی سے اب بولتا بھی نہیں
ترش لفظوں پہ رس گھولتا بھی نہیں
بن گیا اتنا گستاخ آخر وه کیوں
اپنے لفظوں کو اب تولتا بھی نہیں
من کی دنیا ڈبو کر وه خوش ہے بہت
قفل دل پر لگا کھولتا بھی نہیں

0
36
مجھ کو حاصل جو تیری محبت نہیں
مجھ کو پھر تو جہاں کی ضرورت نہیں
آرزو میں تری چل رہی زندگی
آرزو کے سوا یہ سلامت نہیں
گر سفر میں پڑے جو مصیبت کبھی
ہم سفر چھوڑ دوں یہ رفاقت نہیں

0
36
من میں اک تصویر بنتی جا رہی ہے
تن کی اک تاثیر بنتی جا رہی ہے
خواب میں نے جو محبت میں تھے دیکھے
ان کی اک تعبیر بنتی جا رہی ہے
اس کی چاہت کا نتیجہ مجھ سے پو چھو
پیر کی زنجیر بنتی جا رہی ہے

0
18
من کی دنیا پہ وہ پھر حکومت کرے
کوئی تو ہو جو مجھ سے محبت کرے
میرے جذبوں کی منڈی کھلی ہے پڑی
مجھ کو مل جائے وہ جو تجارت کرے
اہل دانش میں رہ رہ کے اکتا گیا
ساتھ میرے چلے جو حماقت کرے

0
26
عمر گزری تجربوں میں
منزلوں کی چاہتوں میں
درد بھولے ہم بھی سارے
عاشقی کی راحتوں میں
ہم پہ گزری ہم ہی جانیں
چاہتوں کی رنجشوں میں

0
34
معلم کو کیسی جزا مل رہی ہے
بنا ہی خطا کے سزا مل رہی ہے
دیا تھا سبق جس نے صبر و وفا کا
تو بدلے میں اس کو سزا مل رہی ہے
تماشا یہ ہم نے عجب آج دیکھا
جزاؤں کے بدلے سزا مل رہی ہے

0
32
بوجھل سے لگ رہے ہو استاد تو نہیں ہو ؟
فکر معاش میں ہو استاد تو نہیں ہو ؟
رستے بنا کے دیتے تھے تم جو سب کو صاحب
رستے میں خود ہو بیٹھے استاد تو نہیں ہو ؟
سب کو جو دی ہے عزت سب محترم ہیں ٹھہرے
عزت جو ڈھونڈتے ہو استاد تو نہیں ہو ؟

0
14
ملا ہے تو جب سے تو فرصت نہیں ہے
مجھے اب تو کوئی بھی حسرت نہیں ہے
ملی ہے مجھے تجھ سے اتنی محبت
مجھے اب کسی سے بھی نفرت نہیں ہے
ملا ہوں جو تم سے تو جانا ہے میں نے
محبت تو دولت ہے غربت نہیں ہے

0
25
اچھی لگتی ہیں ہوائیں مجھ کو
جو ترے پاس بلائیں مجھ کو
کیسے ان سے میں کنارہ کر لوں
تری یادیں جو رجھائیں مجھ کو
مجھے جی کر نہیں کرنا کچھ بھی
جو ترے خواب سلائیں مجھ کو

0
22
خموشی سے اتنا تو میں بھر گیا تھا
جو چیخا نہ ہوتا تو بس مر گیا تھا
زمانے میں عزت مری بڑھ گئی تھی
نکل کر گلی سے تری گھر گیا تھا
محبت کے مارے کیے کام ایسے
جو ہرگز نہ کرتا وہ بھی کر گیا تھا

33
ستاروں سے آگے کی باتیں کریں ہم
اسی کام میں صرف شامیں کریں ہم
بدل دے دلوں کی جو حالت ہماری
کسی سے تو یوں چار آنکھیں کریں ہم
زمانے کے غم بھی مٹا کر جو رکھ دیں
کوئی یاد ایسی بھی یادیں کریں ہم

0
33
محبت مری جو اثاثہ ہوئی ہے
یہ جذبات کا بھی خلاصہ ہوئی ہے
مرے دل کا نقشہ بڑا تھا سہانا
محبت ہی دل کا خرابہ ہوئی ہے
محبت سے پہلے تھا مایوس میں بھی
محبت ہی دل کا دلاسہ ہوئی ہے

0
23
وطن سے دور جا رہے ہیں لوگ کیوں
کہ ماں کو خود جلا رہے ہیں لوگ کیوں
وطن کو اپنے چھوڑ کر بھنور میں ہی
دیارِ غیر جا رہے ہیں لوگ کیوں
سبق پڑھا تھا سر اٹھا کے جینے کا
تو اپنا سر جھکا رہے ہیں لوگ کیوں

0
17
جہاں میں انجمن سی ہیں تری آنکھیں
قسم سے بانکپن سی ہیں تری آنکھیں
میں جاں اپنی بھی دلبر تجھ پہ واروں گا
مرے اچھے وطن سی ہیں تری آنکھیں
تری آنکھوں کی گہرائی بڑی دلکش
ترے ہی بانکپن سی ہیں تری آنکھیں

30
بن ترے مجھ کو کیا لگ رہی ہے
زندگی اک سزا لگ رہی ہے
بے وفا کو جو میں نے تھا چاہا
بس یہی اک خطا لگ رہی ہے
جان کر ہم شفا جس کو لائے
اب وہی اک وبا لگ رہی ہے

0
16
غزل
وہ گھڑی غم کی گھڑی ہے
جس میں وہ تنہا کھڑی ہے
جس کی خاطر چپ کھڑا ہوں
گفت گو پر وہ اڑی ہے
تھی تکبر سے بھری جو

0
30
مجبور دل پہ اتنا کبھی نہ زوال ہو
کھانے کو قورمہ ہو کھلانے کو دال ہو
کھالوں جو قورمہ تو ہضم بھی میں کر سکوں
محبوب ہی کے گھر نہ مرا انتقال ہو
شوق شکم پرستی نے رسوا مجھے کیا
ذوق شکم پرستی میں پھر بھی کمال ہو

42
محبت میں دھوکے بھی کھائیں گے ہمدم
دلوں کی یہ باتیں چھپائیں گے ہمدم
مرا دل رہا جو نہ قابو میں میرے
گلی میں تری یوں ہی جائیں گے ہمدم
خبر جو ملے گی کہ آئیں گے دلبر
تو گلشن بھی اپنا سجائیں گے ہمدم

0
52
فروعی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں
برے ہیں رذائل میں الجھے ہوئے ہیں
مرا ہے قبیلہ بھی افضل تیرے سے
انھی ہی فضائل میں الجھے ہوئے ہیں
ہے خصلت ہماری بھی اعلی سبھی سے
انھی ہی خصائل میں الجھے ہوئے ہیں

0
48
حبس کے موسم میں ہوا لانی ہوگی
آگ کے دریا میں گھٹا لا نی ہوگی
عارضے دیرینہ ہیں دل کے سبھی کو
ڈھونڈ کر کوئی بھی شفا لانی ہوگی
عارضہ دل کو جو ختم کر دے جڑ سے
ایسی تو کوئی بھی دوا لا نی ہوگی

0
29
کوشش ہے سب کی آٹا
منزل ہے سب کی آٹا
ہے صبح سب کی آٹا
ہے شام سب کی آٹا
ہے خواب سب کا آٹا
تعبیر سب کی آٹا

0
57
سبھی اس پہ یوں ہی نہیں تو فدا ہیں
بہاروں کے منظر الگ ہیں جدا ہیں
یہ قدرت کی ساری ہی منظر کشی ہے
یہ رنگوں میں لکھی ہوئی شاعری ہے
یہ سارے ہی رنگوں کے جو سلسلے ہیں
یہ فطرت کے جوبن کے تو سلسلے ہیں

0
34
تری جو آنکھوں میں نم نہیں ہے
مجھے بھی پھر کوئی غم نہیں ہے
بے درد لوگوں کے ساتھ رہنا
کسی اذیت سے کم نہیں ہے
جو شان دستار بن گئی تو
یہ جان دے کر بھی غم نہیں ہے

2
59
غزل
ہمیں سب خبر ہے کہ رہزن کہاں ہے
ہے یہ بھی پتا کے یہاں ہے وہاں ہے
یہاں کون لیڈر یہاں کون رہزن
قسم سے سبھی پر سبھی کچھ عیاں ہے
مرے دیس میں ہے عجب یہ روایت

0
24
گردشِ حا لات پہ رویا نہ کرو
اپنی ہی عا دات پہ رویا نہ کرو
فکر کرو اپنے وطن کی مری جاں
جنگ کا امکاں ہے یوں سویا نہ کرو
عقل کرو صاحب دانش بھی بنو
گیت سبھی کے یوں ہی گایا نہ کرو

57
ہر اک سے ہے پوچھا خسارہ ہے کیسے
ہر اک کو پتا ہے خسارہ ہے کیسے
خسارے سے جب بات آگے چلی تو
بتایا گیا پھر خسارہ ہے کیسے
خسارہ تھا پہلے خسارہ ہے اب بھی
سبھی جا نتے ہیں خسارہ ہے کیسے

0
40
غزل برائے تنقید و اصلاح
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
مرے ہمدم مرے دلبر کبھی یوں بھی نہیں ہوتا
مرا دلبر بنے پتھر کبھی یوں بھی نہیں ہوتا
اگرچہ حادثے کچھ کر بھی سکتے ہیں مگر پھر بھی
کوئی برتر بنے کمتر کبھی یوں بھی نہیں ہوتا

0
36
تری یادیں ستاتی ہیں مرے بچپن کے حاصل پور
ترے قصے سناتی ہیں مرے بچپن کے حاصل پور
میں تجھ کو یاد کرتا ہوں میں تجھ سے باتیں کرتا ہوں
تری یادیں لبھاتی ہیں مرے بچپن کے حاصل پور
میں جتنا دور جاتا ہوں تو اتنا پاس آتا ہے
تو مقناطیس جیسا ہے مرے ساجن کے حاصل پور

40
تجسس بڑھانا مرا کام ہے
بہت کچھ سکھا نا مرا کام ہے
جو سیکھا تھا میں نے پرانا ہوا
نیا پن سکھانا مرا کام ہے
ہیں بچوں کو درپیش مسلے بہت
مسائل گھٹانا مرا کام ہے

0
69
جو چہرے پہ اپنے ہے سہرے لیے
نصیبوں میں ہے درد دہرے لیے
کشش تھی بلا کی یہ ہونا ہی تھا
ا مڈ آئے ملا بھی گجرے لیے
جو برسوں سے تیرا طلب گار تھا
وہ جذبے ابھی بھی ہے سجرے لیے

0
40
وطن اک بنایا تھا اپنا الگ سے
گزاریں گے سب مل کے اپنی الگ سے
ہے تہذیب اپنی جداگانہ سب سے
ہے تاریخ اپنی جداگانہ سب سے
نہ ہوگی کوئی ظلم کی بات اس میں
ملے گا سبھی کو ہی انصاف اس میں

0
43
زمانے میں اس کا چلن ہی جدا ہے
جدا ہو کے وہ مجھ کو پھر سے ملا ہے
وہ دنیا رواجوں میں جو کھو گئی ہے
اسی سے بغاوت یہ کرکے چلا ہے
سزائیں جفائیں سبھی اس نے جھیلیں
مروت میں پھر بھی وہ کرتا دعا ہے

0
41
غزل
مقدر میں جس کے فضا بن گئی ہے
وہ میری ہمیشہ دعا بن گئی ہے
جیوں جس کی خاطر زمانے میں تنہا
وہ میری ہمیشہ بقا بن گئی ہے
ملے مجھ کو راحت اسی کی طرف سے

0
64
مرے دل کی بستی فنا ہو گئی ہے
وہ ہستی جو مجھ سے جدا ہو گئی ہے
دلوں کے مرض یوں تو پھیلے نہ دیکھے
تسلسل میں اب یہ وبا ہو گئی ہے
اسے میں نے چاہا اسے میں نے پوجا
یہی تو فقط اک خطا ہو گئی ہے

0
55
خزاں کے زرد پتوں کی سی ہے قسمت مگر پھر بھی
نظارے ڈھونڈتے پھرنا کہاں آسان ہوتا ہے
قبیلے کے ہی سارے لوگ جب تنہا کریں تو پھر
سہارے ڈھونڈتے پھرنا کہاں آسان ہوتا ہے
ندی کے بیچ میں گرداب میں چکر لگا کر بھی
کنارے ڈھونڈتے پھرنا کہاں آسان ہوتا ہے

0
61
بدلے گا نظام یہ سارا خود
سبھی آس لگائے بیٹھے ہیں
کوئی بھی آ جائے طاقت میں
پلکوں کو بچھائے بیٹھے ہیں
آنکھوں کو جہاں پہ اٹھانا تھا
آنکھوں کو جھکائے بیٹھے ہیں

0
58
بڑا ہی عجب ایک آلہ ملا ہے
فدا اس پہ جاں ہے یہ جب سے ملا ہے
نہ ہمسر ہے کوئی بھی اس کا جہاں میں
جہاں سارا لگتا ہے اب یہ جہاں میں
مسائل کا اس میں جنم ہو گیا ہے
غضب کب غضب تھا غضب یہ ہوا ہے

0
74
نشانے بھی دشمن کے مجھ کو لگے پھر
چراغوں کو اپنے بجھا کر بھی دیکھا
سبھی آندھیوں نے جلایا ہے مجھ کو
ہواؤں سے دل کو لگا کر بھی دیکھا
ستمگر نہ جانے ستم کے سوا کچھ
وفاؤں میں خود کو جلا کر بھی دیکھا

0
50
ملیں جس کو ہم بھی بڑی چاہتوں سے
ضروری نہیں وہ ہمارا ہو جائے
جسے تم بھی چاہو بڑی چاہتوں سے
ضروری نہیں وہ تمہارا ہو جائے
سنبھل کر چلو تم بھی گرنے سے پہلے
ضروری نہیں وہ سہارا ہو جائے

0
56
یہاں تو ہر کوئی مطلب کی بات کرتا ہے
عجیب ہے وہ جو خدمت کی بات کرتا ہے
یہ زندگی تو محبت کے واسطے کم ہے
عجیب ہے وہ جو نفرت کی بات کرتا ہے
کمی تو کوئی نہیں ہے یہاں بھی مشرق میں
عجیب ہے وہ جو مغرب کی بات کرتا ہے

0
38
اصولوں پہ جب چل پڑے ہم تو سمجھو
نیا کچھ ہوا ہے الگ کچھ ہوا ہے
قطاروں میں جب چل پڑے ہم تو سمجھو
نیا کچھ ہوا ہے الگ کچھ ہوا ہے
کتابوں پہ جب چل پڑے ہم تو سمجھو
نیا کچھ ہوا ہے الگ کچھ ہوا ہے

46
میں جس راہ پر چل پڑا ہوں خوشی سے
بزرگوں کا میرے یہ رستہ نہیں تھا
چلن جو ہے میرا چلن یہ برا ہے
بزرگوں کا میرے چلن یہ نہیں تھا
عمل جو ہے میرا عمل یہ برا ہے
بزرگوں کا میرے عمل یہ نہیں تھا

0
44
تھی چاہت مجھے جس کی سب سے زیادہ
اسی نے ہی چاہت ادھوری میں رکھا
تھی قربت مجھے جس سے سب سے زیادہ
اسی نے مجھے بس یوں دوری میں رکھا
ملے تھے جسے ہو کے مخلص بہت ہم
اسی نے ہمیں جی حضوری میں رکھا

0
53
نفس کی نادانیاں
عشق کی رسوائیاں
قلب کی رنگینیاں
عقل کی حیرانیاں
خلق کی تابانیاں
جہل کی تاریکیاں

0
48
زندگی اچھی نہیں ہے
بن ترے کچھ بھی نہیں ہے
سادگی تیری پہ مرتے
یہ تجھے جچتی نہیں ہے
دل جلی تیری کہانی
مجھ کو سچ لگتی نہیں ہے

0
66
وطن میں اپنے ہی رہنا ہوگا
حقوق لینے پہ اٹھنا ہوگا
کمی نہیں ہے مرے وطن میں
کسی بھی شے کی یہ کہنا ہوگا
ہیں دنیا ساری میں سب سے آگے
یقین اس پر بھی رکھنا ہوگا

0
65
پرانے دور کے اندازے کام کے نہیں ہیں اب
جدید دور کے افسانے نام کے نہیں ہیں اب
پرانے دور کے میخانے کام کے نہیں ہیں اب
جدید دور کے ہنگامے نام کے نہیں ہیں اب
پرانے دور کے شکرانے کام کے نہیں ہیں اب
جدید دور کے ظہرانے نام کے نہیں ہیں اب

0
53
انداز کیسے بدلے زمانے کے
حیران ہیں نہیں ہیں بتانے کے
فن جانتے نہیں ہیں لبھانے کے
گر جانتے ہیں سارے ستانے کے
شیریں کلام ہم سے نہیں ہوتا
ماہر ہیں ہم فقط ہی لڑانے کے

61
خزاں کے زرد پتوں کی سی ہے قسمت مگر پھر بھی
نظارے ڈھونڈتے پھرنا کہاں آسان ہوتا ہے
قبیلے کے ہی سارے لوگ جب تنہا کریں تو پھر
سہارے ڈھونڈتے پھرنا کہاں آسان ہوتا ہے
ندی کے بیچ میں گرداب میں چکر لگا کر بھی
کنارے ڈھونڈتے پھرنا کہاں آسان ہوتا ہے

1
48
مرے ہمدم مرے دلبر کرو مجھ سے نئی باتیں
نئی باتیں سکھانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
مرے محبوب تیری ساری باتیں یاد ہیں مجھ کو
کئی یادیں مٹانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
یہ سناٹے تری یادوں کے مجھ کو ڈستے رہتے ہیں
نئے مرہم بنانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے

0
27
نہ ہارا ہوں میں اور نہ جیتا ہے دل بر
عجب ہو رہی ہے لڑائی ہماری
میں دل میں ہوں اس کے وہ دل میں ہے میرے
عجب ہو رہی ہے جدائی ہماری
رقیبوں نے مل کر دعا ہم کو دی ہے
عجب ہو رہی ہے دوائی ہماری

0
60
سمجھ کچھ نہیں آ رہی ہے مجھےتو
سمجھ گر لگے تو مجھے بھی بتانا
سنائی نہیں دے رہا ہے مجھے تو
تمہیں کچھ سنے تو مجھے بھی بتانا
دکھائی نہیں دے رہا ہے مجھے تو
تمھیں کچھ دکھے تو مجھے بھی بتانا

0
85
الہی قلم کو مرے کر رواں
الہی قلم سے میں نعتیں لکھو ں
الہی قلم میں یہ تاثیر دے
میں لکھوں تو بس میں بھی نعتیں لکھوں
خوشی تو ہے بننے کی شاعر مجھے
خوشی یہ بھی ہے کے میں نعتیں لکھوں

0
54
سبھی کہتے ہیں کہ استاد اچھے نہیں ہیں
کسی نے سوچا کہ کیوں اچھے نہیں ہیں
یہاں بنتے ہیں سبھی شوق سے افسر
افسر بھی ہیں کہتے استاد اچھے نہیں ہیں

0
60
یہ نغمے وطن کے بھی گاؤ خوشی سے
حقائق سے پردے اٹھاؤ خوشی سے
مرا یہ وطن ہے میں اس کا ہوں مالک
یہ احساس تم بھی جگا ؤ خوشی سے
مرے اس وطن میں ہو منشا بھی میری
مرے حکم کو تم نبھاؤ خوشی سے

0
50
ہر اک سے ہے پوچھا ذرا تم بتاؤ
یہ فصل تبسم کہاں ہم ا گائیں
ہر اک سے ہے پوچھا ذرا تم بتاؤ
یہ نغمے وفا کے کہاں ہم سنائیں
ہر اک سے ہے پوچھا ذرا تم بتاؤ
یہ دریا سخن کے کہاں ہم بہائیں

0
63
حال دل تجھ کو بتائیں کیسے
تجھ سے ہم خود کو بچائیں کیسے
کب سے تم ہم کو رلائے جاؤ
ہم یہ سب کو ہی بتائیں کیسے
سن کے تم ان سنی کردیتے ہو
سن سنا کے بھی سنائیں کیسے

0
32
تیرے جو دو سخا کی بات کروں
جسم بے سایہ کی میں بات کروں
تیرے سائے کے سائے کو ترسوں
نور خالق جہاں کی بات کروں
چاند ٹکڑے ہوا ترے کہے پر
میں تو مختار کل کی بات کرو ں

0
56
مقدر ہمارا بناتے تھے وہ
ہمیں آسماں پر بٹھاتے تھے وہ
شرافت دیانت سکھاتے تھے وہ
محبت کا خوگر بنا تے تھے وہ
ہمیں دیکھ کر مسکراتے تھے وہ
چمن میں ہمیں تو سجاتے تھے وہ

0
31
اندھیروں کو مٹایا جا سکتا ہے
چراغوں کو جلایا جا سکتا ہے
اگر اخلاص پیدا ہو سب میں تو
یہ گلشن بھی سجایا جا سکتا ہے

77
بچوں کے نتیجوں سے پریشان ہیں کیوں
اپنے ہی عوامل سے انجان سے کیوں
شکر جو ملائی نہیں پھولوں میں کبھی
گل قند بھلا نکلے نمک دان سے کیوں

47
مجھ سے میرا دوست بھلایا نہیں جاتا
میری آنکھوں سے ترا سایہ نہیں جاتا
خود سے دور میں ہو جاتا ہوں کئی بار
تجھ سے دور بھی مجھ سے جایا نہیں جاتا

75
وہ جاتے جاتے بتا کر نہیں گیا
وہ کوئی شکوہ سنا کر نہیں گیا
اداس سا وہ گیا احساں کر گیا
وہ گاتے گاتے رلا کر نہیں گیا

0
57
جدائی کا سبب ہم بتائیں کیوں
کہانی اپنی بھی ہم سنائیں کیوں
تری یادیں محبت کی یادیں ہیں
جوانی اپنی بھی ہم رلائیں کیوں

0
75
اس کے جانے سے گئی رونق ساری
جس کے ہونے سے تھی رونق ساری
اس کے جانے سے یہ جانا سب نے
بس اس کے دم سے تھی رونق ساری

59
کوئی جو تیری آنکھ کا تارا ہوتا
اس پہ میں نے اپنی جاں کو وارا ہوتا
تو جو میرا ساتھی اگر ہوتا خوش دل
خوش نصیبی تجھ کو میں نے چاہا ہوتا

0
56
کب کا وہ تو روٹھ چکا ہوتا
الفت سے اگر نہ باندھا ہوتا
میں کب سے اکیلا رہتا ہوتا
رشتوں نے اگر نہ جکڑا ہوتا
سر درد وہ نا ہو تا بے دردی
ہر وقت جسے نہ پکڑا ہوتا

0
59
نظمیں پڑھ کر مجھ کو خود بھی
نظمیں لکھنی آگئی ہیں

0
46
اندھیروں کو مٹانے کا ارادہ دیکھ کر
وہ روشنی میں ایک جگنو باندھ رکھا ہے

100
میرے اپنوں کو میرا ہونا اچھا نہیں لگتا
اپنوں کو مجھے تو کبھی کھونا اچھا نہیں لگتا
دل بیزار ہیں وہ سارے اچھے کاموں سے
ان کو جو اچھا لگے ہے مجھے اچھا نہیں لگتا

51
آپ بھی اتفاقا ہی ہوئے زاہد
ورنہ زاہد کوئی خود سے نہیں ہوتا

55
جو فطرت ہمیں نے بگاڑی تھی خود ہی
ؤہ فطرت ہمیں کر کے سیدھا رہے گی
جو دریا کے گھر کو اجاڑا تھا ہم نے
سو بدلہ وہ ہم سے بھی لے کر رہا ہے
نظام خدا کا یہ عادی ہے پانی
نظام خدا کو ہمیں نے ہے چھوڑا

60
تجھ سے مل کر یہی جانا مری جاناں
زندگی وہ جو تیرے ساتھ میں گزرے

61
گھر جو پانی کے گھر میں ہوگا پانی تو آئے گا
رستہ پانی کا رستہ ہو تو پانی تو آئے گا

50
ایک دریا میرے گھر رہنے لگا ہے
مجھ کو اپنے سے بھی ڈر رہنے لگا ہے
کاش میں بھی پنچھی کے جیسا ہی ہوتا
نسل انساں سے تو ڈر رہنے لگا ہے

47
پانی جو ذخیرہ کر لیتے
صحرا کو بھی جنگل کر لیتے
پھر بھوکا نہ سوتا کوئی بھی
خوش حال بھی سب کو کر لیتے

0
37
لگتا ہے خوں انسانی بہہ رہا ہے
چاروں جانب یوں پانی بہہ رہا ہے
ہم کو تو بے حسی نے جکڑا ہے
بےحس ہے آنکھ کب پانی بہہ رہا ہے

46
فکروں کی فکر کیوں کرے کوئی
اتنی بھی فکر کیوں کرے کوئی
جب بنا سوچے خوش ہیں سارے تو
مفت کی فکر کیوں کرے کوئی

0
55
سنے تھے جو قصے بزرگوں سے ہم نے
وہ قصے بھی ہم کو بھلانے پڑیں گے
عمارت نئی جو بنانی ہو ہم کو
تو بنیاد پھر سے بنانی پڑے گی
نہایت ادب سے گزارش ہے میری
وہ رستے پرانے مٹانے پڑیں گے

44
میری دعا ہے میرا وطن یہ
روشن ستاروں کی طرح چمکے
میرے خدا میرے اس وطن میں
کوئی نا راتوں کو بھوکا سو ئے
میرے وطن کی یہ ارض مقدس
قرآن وسنت کی سرزمیں ہو

0
66
ملے تھے جب بھی ان سے ہم ہوئے تھے خود سے اور تنہا
اگر نہ ملتے ان کو ہم تو خود کے ساتھ رہتے ہم

0
43
چلو پھر سے ہم پڑھانے لگتے ہیں
ایسا کرنے میں زمانے لگتے ہیں
روٹھنے والوں سے ملتا کون ہے
چلو ہم ان کو منانے لگتے ہیں

0
53
ہاتھوں میں ہاتھ دیا کرتے ہیں
سچوں کا ساتھ دیا کرتے ہیں
آندھی جتنی بھی چھا جائے ہر سو
چراغوں کا ساتھ دیا کرتے ہیں

50
بہانے بنانے کوئی تم سے سیکھے
وفا کے ترانے کوئی تم سے سیکھے
اشاروں سے آنکھوں کے توڑو ہو دل تم
غضب کے نشانے کوئی تم سے سیکھے

46
سیدھا چلو گے دقت تو ہوگی
سب کے بنوگے دقت تو ہوگی
سب کے جو ہوگے کچھ بھی نا ہوگا
اپنے بنو گے دقت تو ہوگی

49
غلطی جو کرے گا وہ پریشان بھی ہوگا
قانون جو ہوگا تو چالان بھی ہوگا
نا کرنا کبھی بھی تو نقصان کسی کا
نقصان کرے گا تو نقصان بھی ہوگا

1
45
کچھ بھی ایسا مت کیا کیجئے
خود کا برا مت کیا کیجئے
کرنا پڑے جو کچھ بھی برا
برا بالکل مت کیا کیجئے

69
تری بزم میں ہم جو بیٹھے رہے
تمنا تھی دل کی سو بیٹھے رہے
بڑی دیر تک ہم رہے سوچتے
وہ تھی سوچ میری سو بیٹھے رہے

0
48
خوشی سے چور ہوتی جا رہی ہے
وہ ہم سے دور ہوتی جا رہی ہے
مرے ارمانوں پر پھیرکر پانی
بھنور سے دور ہوتی جا رہی ہے

0
42
یہ دنیا ساری ہمارے قصے ہی گاتی رہتی
کبھی جو ہم تم اداس رہتے تو ایسا ہوتا
بنا م طاقت یہ ناتوانی بھی کچھ جو کہتی
غلام ہم جو عذاب سہتے تو ایسا ہوتا
کوئی بھی رستہ وہ منزلوں کا نکال دیتے
اداس نسلوں سے ہم جو ملتے تو ایسا ہوتا

0
79
ریاست سے ٹکر کبھی تو نے لی تو
کھلے گا یہ عقدہ کہ ہے کیا ریاست
سیاست میں رکھا قدم جو کبھی تو
کھلے گا یہ عقدہ کہ ہے کیا سیاست
صحافت میں رکھا قدم جو کبھی تو
کھلے گا یہ عقدہ کہ ہے کیا صحافت

0
62
کرتے ہیں سارے بہت اچھی باتیں
کردار کو اچھا کیوں نہیں کرتے
لڑتے ہیں ساری عمر بے مقصد
مقصد کی خاطر کیوں نہیں لڑتے
جہل کے رستوں کے شیدائی
علم کے رستوں پہ کیوں نہیں چلتے

0
45
گھر جو سب کے پکے ہوتے
گرنے کے نا دھڑکے ہوتے
تم سے ہم بھی ملتے ہوتے
تم جو ہم کو ملتے ہوتے
کرتے ہم بھی ان سے شکوہ
وہ جو ہم پر مرتے ہوتے

0
42
بارشوں سے ہم تھک چکے ہیں اب
اے مرے خدا رحم کردے اب
بارشوں سے ہر سمت پانی ہے
اے مرے خدا رحم کر دے اب
بارشوں نے نقصان کر دیا
اے مرے خدا رحم کر دے اب

0
46
بارشوں کے موسم میں ہم بھٹکتے رہتے ہیں
دل کہیں پہ رہتا ہے ہم کہیں پہ رہتے ہیں
بارشوں کے موسم میں ہم سلگتے رہتے ہیں
دل کہیں پہ جلتا ہے ہم کہیں پہ چلتے ہیں
بارشوں کے موسم میں ہم بکھرتے رہتے ہیں
دل کہیں بکھرتا ہے ہم کہیں بکھرتے ہیں

0
67
سوچتا ہوں بولوں مگر بول کر بھی کیا کروں گا
دل کا درد کھولوں مگر کھول کر بھی کیا کروں گا
سنتا کون ہے یہاں پر بول کر کیا کروں گا
درد دل کے واسطے رو کر بھی میں کیا کروں گا

0
63
یہ بزمِ محبّت جو بیٹھی ہوئی ہے
محبت سے ان کی یہ مجلس سجی ہے
محبت سے پیغام اس کا ملا تھا
محبت سے سارے ہی آئے ہوئے ہیں
محبت سے نفرت کو ہم مات دیں گے
محبت نبھانے ہی آئے ہوئے ہیں

0
87
مصمم ارادے سے کی میں نے ہجرت
گناہوں کو چھوڑا ہے نیکی کی خاطر

0
68
رم جھم برسے ہے ساون
چاہت تیری ہے ساون
بادل برسے ہے ساون
یادیں تیری ہے ساون
خوشبو برسے ہے ساون
آنکھیں تیری ہے ساون

113
کریں گے برا تو برا ہوگا ہم سے
جو اچھا کریں گے تو اچھا ہی ہوگا
نہیں دیکھا میں نے کبھی روتا اس کو
رلایا نہ ہو جس نے خود بھی کسی کو
کھلانا پلانا اجر تم کمانا
کبھی بھی کسی پر نا تہمت لگانا

0
143
سچ کی اب تد فین کا سوچا جائے
راز اب اس کی موت کا کھوجا جائے

0
42
کاہے کو بتائے اصلیت اپنی
سچ سامنے آجائے برا لگتا ہے

0
64
جگنو تو کب کے روٹھ گئے ہم سے
بلبل بھی اب تو روٹھی سی لگتی ہے

0
80
طرز سخن کی یہ ہوتی ہے بڑی خوبی
نقص سخن کوئی رہنے جو نہیں دیتے

0
65
بد دلی سے وہ سنے تو خاک سمجھے میرا فرمان
بات میری وہ سمجھنا چاہے تو آساں بہت ہے

0
96
ہونے کا ہونا ہی تو اصل ہونا چاہیے
ہونے کے ہونے کا عنوان ہونا چاہیے

0
49
خوشی تھی کہ آئے گی عیدی کسی دن
ملے گی محبت سے عیدی کسی دن
یہ دنیا تھی کیا اور کیا ہو گئی ہے
وفاؤں سے بالکل ہی خالی ہوئی ہے
بھرم تھا جو پہلے ختم ہو رہا ہے
ملی ہم کو کس جرم کی یہ سزا ہے

0
67
ذبیحہ کا ہم جو ارادہ کریں
یہ وعدہ کریں پھر یہ وعدہ کریں
چلیں ہم کریں آج سے کچھ نیا
سخاوت کریں اور عبادت کریں
عبادت خدا کی سخاوت بھی ہے
طریقت یہی ہے شریعت یہی

0
80
وطن کا نوحہ
وطن کا مرے جو تماشا ہوا ہے
ملی ہم کو اپنے کیے کی سزا ہے
عمل سے ہیں خالی جو سارے کے سارے
دعاؤں پہ ہم نے گزارا کیا ہے
چلے گا وطن یہ ہمارا تو کیسے

1
76
خود کلامی
مخاطب تو اپنے سے ہو تو لیا کر
کبھی خود سے باتیں تو کر تو لیا کر
ستاروں میں ہر وقت کھویا رہے تو
زمیں پر کبھی تو بھی رہ تو لیا کر
کرے دوسروں سے نصیحت کی باتیں

0
93
سونے جیسی عمر میں اکثر
لوہے جیسے کام ہیں کرتے

0
47
چاند جیسا جب سے کہہ دیا ان کو
ہوگئے وہ چاند اور چاند عید کا

0
41
سردیوں میں بارشوں کے دن ہیں
بن تیرے اداسیوں کے دن ہیں
کیا بتلاؤں کس طرح کے دن ہیں
نا تمام سی خواہشوں کے دن ہیں
کرنیں سورج کی دیکھنے کو ترسوں
کالے کالے بادلوں کے دن ہیں

0
67
میں تو دنیا دیکھ لیتا
تجھ میں جو نا کھویا ہوتا

0
48
بونوں کے سماج میں اکثر
قد والوں کو جینے نہیں دیتے

0
64
اس کو تصور میں بسایا تو
اس نے تصویر بدل ڈالی

0
86
پتھر کے خداؤں سے لڑائی ہے
شیشے کی جبیں کے سہارے میری

0
79
عشق میں ناکامی کیسی ہوتی ہے
ادھ پڑھی کتاب جیسی ہوتی ہے

0
55
کیا سنائیں ہم دل کے درد خانے کی
کوئی اس میں روز زہر ڈال دیتا ہے

0
51
بیٹھے بیٹھے گم ہونے لگتا ہوں
اب تو خود سے تم ہونے لگتا ہوں

0
59
اچھی لگتی ہے حق بات وہی
جو ہمارے حق میں اچھی ہو

0
72
ہم بگڑتے رہتے ہیں
زندگی کے آنچل میں
ساتھ کوئی رہتا ہے
دل کے ہر بکھیڑے میں
غم پنپتے رہتے ہیں
بے دلی کے موسم میں

0
71
بستی میں جب رہتے تھے
دل ہی دل میں کہتے تھے
شہر میں جب ہم جائیں گے
پھر نہ بستی آئیں گے
شہر میں اب ہم رہتے ہیں
اور بستی کو ترستے ہیں

0
74
نئے زمانے میں تم جو ہم کو پرانی باتیں سنا رہے ہو
عجیب لگتے ہو تم بھی آخر یہ سب جو ہم کو سنا رہے ہو
دلوں کے قصے دلوں کے نغمے جو ہم سے تم بھی چھپا رہے ہو
سمجھ کے بچے بھولے ہم کو جو ہم کو تم یوں ڈرا رہے ہو
وفا کی باتیں جفا کی باتیں بتاں کی باتیں سزا کی باتیں
تمہاری باتوں سے لگ رہا ہے کبھی جو تم بھی خدا رہے ہو

0
81
انسان جو بہتر کرنے ہوں
استاد کو بہتر کرتے ہیں
اسکول جو بہتر کرنے ہوں
انداز کو بہتر کرتے ہیں
ٹعلیم سے دامن بھرنے ہوں
اخلاق کو بہتر کرتے ہیں

0
55
اک خواہش میری اتنی ہے
میری بستی بستے بس جائے
شہروں میں جب سے رہتے ہیں
کیوں بستی بستی کہتے ہیں
شہروں میں کیوں گمنامی ہو
جب بستی میری اپنی ہو

0
70
ایک نظم والدین کی محبت میں
میرا بابا میرا سب کچھ
میری مما میری سب کچھ
پہلے دن سے اب تک ساری
میری جیون دھارا ان سے
دولت عزت شہرت رتبہ

0
53
کام سے دل لگی ہو گئی ہے مجھے
عمر سے دوستی ہوگئی ہے مجھے

0
50
سچ کہنا اور سکھی رہنا
نا ممکن ہے بھئی ناممکن

0
38
دیکھا جو کبھی اس کو ہوتا
ہم اس کے خیالوں تک جاتے
جانچا جو کبھی اس کو ہوتا
ہم اس کے کمالوں تک جاتے
پرکھا جو کبھی اس کو ہوتا
ہم اس کے حسابوں تک جاتے

0
40
کوئی بات ہوتی تو ہم بات کرتے
تری بات میں ہم کیا بات کرتے

0
51
ہنس ہنس کے جیتا ہے کبھی رو بھی لیا کر
دل کب میری سنتا ہے کبھی رو بھی لیا کر
سج دھج کر جو سر تا پا پھر بھی رہے میلا
دل میلا ہے اس کو کبھی دھو بھی لیا کر

0
47
وفا اخلاص قربانی الفت یوں
بہت کچھ دیکھ کر ہم بھی روئے پھر

0
51
پھولوں کی تمنا ہوتی ہے بڑی خوش کن
منزل پہ پتا چلتی ہے کانٹوں کی قیمت

0
48
تو گلے جو لگاتا ہے اسے وقت بے وقت
تیری یہ عادت اسکو سدھرنے نہیں دیتی

0
90
مسافر تمنا لئے جا رہا ہے
سفر کی یہی اک وجہ ہے

0
57
جھوٹوں سے الفت ہم کو ہے
سچ میں ہم سچ کے قاتل ہیں

0
59
مرے دیس کے سارے جھوٹوں سے
مجھے سچ کی توقع ہوتی ہے

0
37
نفرت میں ہے ناں الفت میں ہے
ہر شخص عجب حالت میں ہے
حاجت میں ہے ناں راحت میں ہے
ہر شخص عجب حالت میں ہے
قربت میں ہے ناں فرقت میں ہے
ہر شخص عجب حالت میں ہے

0
55
نظم کا عنوان "ہمارے افسر"
جب سے افسر ہمارے بنے وہ
تب سے ہم بھی عجب حال میں ہیں
وہ جو کرتے بھلا ہیں سبھی سے
وہ بھلا ہم سبھی جانتے ہیں
ان کے دفتر میں جب بھی گئے ہم

0
49
نہ جانے مرے دل کو یہ کیا ہوا ہے
یہ دل ہے مرا تو ترا کیا ہوا ہے
مرا دل مرا تھا مرا اب نہیں ہے
مرے دل پہ قبضہ ترا کیا ہوا ہے
لگے جو خبر تو مجھے بھی بتانا
مرا دل یہ آخر ترا کیا ہوا ہے

0
56
ولادت لڑکپن جوانی بڑھاپا
یہی زندگی کی کہانی ہمیشہ
محبت کے مارے محبت میں خوش ہیں
یہی دلبروں کی کہانی ہمیشہ
مرا غم اثاثہ مرا ہے مرا ہے
یہی غم زدوں کی کہانی ہمیشہ

0
52
نہ جانے مرے دل کو یہ کیا ہوا ہے
یہ دل ہے مرا تو ترا کیا ہوا ہے
مرا دل مرا تھا مرا اب نہیں ہے
مرے دل پہ قبضہ ترا کیا ہوا ہے
لگے جو خبر تو مجھے بھی بتانا
مرا دل یہ آخر ترا کیا ہوا ہے

0
53
زندگی بن ترے کچھ نہیں کچھ نہیں
جان جاں بن ترے کچھ نہیں کچھ نہیں
تو جو بازار میں آج آیا نہیں
آج بازار میں بن ترے کچھ نہیں
دل جگر جان من چاہتا تجھ کو ہے
دل نشیں ہم سفر بن ترے کچھ نہیں

0
53
ابتدا سے وہ ہے ہر شئے میں وہ ہے
رات دن اس کے ہیں صبح و شام اس کے ہیں
کائنات اس کی ہے کہکشاں اس کی ہے
آسماں اس کے ہیں ہر زمیں اس کی ہے
دو جہاں اس کے ہیں سب جہاں اس کے ہیں
ہر کوئی اس کا ہے سب کرم اس کے ہیں

0
34
بھلا ہو ہمارا بھلا کیسے ممکن
نہ رہبر ہمارا نہ قائد ہے کوئی
کوئی ہم کو یک جا جو کرنے لگے تو
اسے ہی جدا سب سے کرتے ہیں پہلے
بڑی بھول ہے یہ ہماری بزرگو
نہیں ہم کبھی بھی بڑوں سے بڑے ہیں

0
75
محبت پہ روئے جوانی پہ روئے
بہت ہم ہماری کہانی پہ روئے
کہانی ہماری الگ تھی جہاں سے
سبھی بس ہماری کہانی پہ روئے
کہانی ہماری غموں سے بھری تھی
غموں میں غموں کی روانی پہ روئے

0
48
تعارف مری یہ ریاست مری ہے
نہیں کچھ میں اس بن نہیں کچھ نہیں ہوں
فریضہ مرا ہے کہ میں کچھ تو لکھوں
ریاست کہانی بہاول کہانی
زمانے میں سب سے جدا تھی یہ کیا تھی
ترقی میں علم و ادب کی فضا تھی

0
39
رواجو ں سے ترک تعلق ہے مشکل
بڑا اس سے مشکل نبھانا ہے ان کو
عجب ہیں مرے یہ مسائل کے قصے
مسائل سے مشکل بھلانا ہے ان کو
خیالوں کی دنیا میں ہوتے ہوئے بھی
حقیقت سے مشکل رلانا ہے ان کو

0
52
محبت مروت سلامت نہیں ہے
کروں جو ٰعداوت ضرورت نہیں ہے
ستمگر سے کہہ دو ستم نا کرے اب
مرے دل کا جذبہ بغاوت نہیں ہے
بڑا تجھ کو مانا بڑا تو نہیں تھا
حقیقت یہی ہے عداوت نہیں ہے

0
54
درختوں سے ہر سو عجب رنگ بھرے تھے
تحفظ میں سارے ہی چھوٹے بڑے تھے
علامت تھے اشجار پھولوں پھلوں کے
خوشی کے ندی کے ہوا کے فضا کے
ہمارا تو مذہب ہمیں ہے سکھاتا
شجر جو لگاؤ اجر تم کماؤ

0
47
دلبری عاشقی ان کہی شاعری
زندگی روبرو بن ترے کچھ نہیں
دل ترا جاں مری تو مری گل جبیں
اے مرے ہم سفر بن ترے کچھ نہیں
چشم نم یہ مرا درد دل ہی تو ہے
اےمرے ہم نشیں بن ترے کچھ نہیں

0
50
نصابی کتابیں ہیں فرضی کتابیں
مسائل کا حل ان میں کوئی نہیں ہے
مسائل ہیں بچوں کو درپیش جو بھی
انہیں ہی مسائل کا چرچا نہیں ہے
ہے فرضی مسائل کا ذکر ان میں ہر جا
حقیقی مسائل کا چرچا نہیں ہے

0
44
کل اور آج
تب بھی حالات اچھے نہ تھے
اب بھی حالات اچھے نہیں
تب بھی پینے کو پانی نہ تھا
اب بھی پینے کو پانی نہیں
تب بھی تھی مفلسی چار سو

0
40
جو الفت میں مانگا تھا یہ وہ نہیں ہے
جوسپنوں میں دیکھا تھا یہ وہ نہیں ہے
مرے دل پہ قبضہ تھا جس کا ازل سے
میں جس دل میں رہتا تھا یہ وہ نہیں ہے
جسے دیکھنے کو مری ہی گلی میں
مرا دل تڑپتا تھا یہ وہ نہیں ہے

0
42
اٹل ہے یہ قانون قدرت اٹل ہے
اگے کا وہی جو کہ بویا ہوا ہے
ترے عشق میں وہ جو پاگل ہوا ہے
ترے ہی ستم کا ستایا ہوا ہے
ترے سامنے وہ جو بہکا ہوا ہے
اثر تیری مے کا یہ چھایا ہوا ہے

0
80
دعا تھی یہ مانگی کہ بارش ہو یا رب
دعا تھی لبوں پر ہوئی کھل کے بارش
کرم ہو گیا ہے خدا کی عطا سے
گدا خوش ہوا ہے ادائے دعا سے
لگا ہے دعا سب کی پوری ہوئی ہے
ترے حکم سے کھل کے بارش ہوئی ہے

0
41
دعا گو خدایا یہ بندے ترے ہیں
ترے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں
نہ فریاد تیرے سوا ہے کسی سے
ہے فریاد بس اک تجھی سے تجھی سے
عبادت سخاوت ترے نام کی ہے
ہمیں ساری چاہت ترے نام کی ہے

0
138
ہمارا جگر اب ہمارا کہاں ہے
ہمارا جگر اب تمہارا ہوا ہے
مرے حوصلوں میں اضافہ ہوا ہے
تمہارا جو ہم کو سہارا ہوا ہے
بہت خوش ہوئے ہیں معانی سے اس کے
تمہارا جو ہم کو اشارہ ہوا ہے

0
95
سبھی کچھ تو کہنا مگر یہ نہ کہنا
زمانہ برا ہے کبھی یہ نہ کہنا
ہمارا ہی چہرا ہمیں ہے دکھاتا
یہ شیشہ برا ہے کبھی یہ نہ کہنا
مری آرزو ہے مری جستجو ہے
تو عادت ہے میری کبھی یہ نہ کہنا

0
85