Circle Image

Ghulam Muhammad

@GMKHAN

یہ بستی نہیں اب تو رہنے کے قابل
بدن اب نہیں درد سہنے کے قابل
زباں پر بڑا لگ چکا اب ہے تالا
زباں اب نہیں کچھ بھی کہنے کے قابل
قلم کار ڈر کر قلم توڑ بیٹھے
قلم اب نہیں کچھ بھی لکھنے کے قابل

0
9
ذہانت کا کھلاڑی تھا سبھی کو مات دے آتا
مگر اس کھیل میں جیتے ذہانت سے جو فارغ تھے
GMKHAN

0
9
نقش لائل پوری کی زمین میں ایک غزل
"رسم الفت کو نبھائیں تو نبھائیں کیسے
ہر طرف آگ ہے دامن کو بچائیں کیسے"
جشن راحت کو منائیں تو منائیں کیسے
ہر طرف بھوک ہے کھانوں کو سجائیں کیسے
دل گرفتہ ہے مرا جس کے سبب اے ہمدم

0
2
43
بقا کی قسمیں جو کھا رہے ہیں
فنا کے نزدیک جا رہے ہیں
ابھی تھا جن کو نظام سونپا
انھی کو پھر سے ہٹا رہے ہیں
بدل بدل کے سبھی ہی ناظم
عجب یہ منظر دکھا رہے ہیں

0
18
کوئی رستہ بنانا ہو
کوئی مشکل ٹھکانہ ہو
مجھے آواز دے دینا
کبھی منزل نہ ملتی ہو
کہیں مرضی نہ چلتی ہو
مجھے اواز دے دینا

0
13
سیاسی کرشمے عجب گل کھلائیں
پرندے انھیں کے سبھی چہچہایئں
چمن میں ہے رونق انھیں بلبلوں سے
قصیدے وڈیروں کے جو گنگنائیں
وفادار ہیں جو سیاسی گھروں کے
وہی مسندوں کے مزے بھی اٹھائیں

14
مری زندگی ہے پیام محبت
محبت ہے میری بنام محبت
مجھے شاعری نے سکھایا تکلم
یہ غزلیں ہیں میری کلام محبت
محبت پہ قربان دنیا یہ ساری
کوئی مجھ سے پوچھے جو دام محبت

0
13
خیالوں کی بستی بسائیں گے ہم
نشاں ظلمتوں کے مٹائیں گے ہم
جنھوں نے رلایا سبھی کو بہت
قسم ہے انھیں کو رلائیں گے ہم
جو خطرے ہیں لاحق وطن کو مرے
انھیں سے وطن کو بچائیں گے ہم

0
10
عشق بھی تو کمال کرتا ہے
جینا آخر محال کرتا ہے
عقل کہتی ہے تو سنبھل کے چل
عشق پل پل نڈھال کرتا ہے
ان کی آنکھیں ہمیں بتاتی ہیں
کوئی ان کا خیال کرتا ہے

0
8
محبت کی کہانی میں کوئی ندرت بھی لے آؤ
وہی لیلی وہی مجنوں کوئی جدت بھی لے آؤ
جہاں انمول ملتی تھی محبت بھی ترے در سے
وہاں مفلس کے کھاتے میں کوئی تہمت بھی لے آؤ
عبادت سے جہاں ملتی ہے جنت شیخ صاحب کو
وہیں خدمت سے جنت سی کوئی نعمت بھی لے آؤ

0
23
سنا تھا کہ میرٹ پہ آیا کریں گے
مرادیں سبھی من کی پایا کریں گے
جلے دھوپ میں تو پتہ یہ چلا ہے
کرائے کے بادل ہی سایہ کریں گے
کریں فکر اپنے چمن کی سبھی ہم
بہاروں کے موسم نہ آیا کریں گے

0
11
کئی شوق میرے ابھی رہ گئے ہیں
مگر درد تیرے سبھی سہ گئے ہیں
کوئی صاحب ظلم کا ہاتھ روکے
اشاروں اشاروں میں ہم کہہ گئے ہیں
ادھر کو نہ چلنا جدھر کی ہوا ہو
ہمیشہ یہی بات ہم کہہ گئے ہیں

0
7
گرچہ ہر اک مذاق سہتے ہیں
اہل دانش اداس رہتے ہیں
عشق ہے کار منفرد ایسا
جس میں عاشق عذاب سہتے ہیں
جس کے باعث ہے رونق دنیا
اس کو سارے کتاب کہتے ہیں

0
16
بات کوئی کر نہ پائے
دیکھ کر ہم مسکرائے
دام پھیلے ہر طرف تھے
دام میں پھر ہم نہ آئے
اس نے زلفوں کو سنبھالا
کالے بادل پھر نہ چھائے

0
18
آبھی جا دن گزر جائے گا
حال میرا سدھر جائے گا
جب بھی دیکھا تمہیں اک نظر
حسن تیرا نکھر جائے گا
ساتھ اپنے جو لے کر چلو
منچلا بھی سدھر جائے گا

0
13
ایسے لگتا ہے زندان میں رہتے ہیں
وقت بے وقت بحران میں رہتے ہیں
محو حیرت ہوں ممکن ہوا کیسے یہ
کتنے افراد انسان میں رہتے ہیں
عقل والے بھروسہ کریں عقل پر
ہم سے بھولے تو وجدان میں رہتے ہیں

0
8
بہت تکلیف دیتی ہے یہ تنہائی دسمبر میں
نہیں ہوتی کہیں کوئی بھی شنوائی دسمبر میں
محبت میں جو گہرائی نصیبوں میں ہمارے ہے
بہت بے چین کرتی ہے وہ گہرائی دسمبر میں
ارادہ ہے محبت کا مگر سردی ہے زوروں کی
محبت جس سے کرنی ہے وہ ٹھٹھرائی دسمبر میں

16
چا ہے سب سے سلام رکھتے ہیں
دل میں تیرا مقام رکھتے ہیں
دن گزارا ہے ایک چاہت میں
نام تیرے یہ شام رکھتے ہیں
پیار تیرے میں بک گئے ورنہ
تجھ سے ہم تو غلام رکھتے ہیں

0
16
محبت کی عدالت میں وکالت بھی نہیں ہوتی
سزا بھی سخت ہوتی ہے ضمانت بھی نہیں ہوتی
محبت کھیل ایسا ہے امانت کے اصولوں کا
امانت کے اصولوں میں خیانت بھی نہیں ہوتی
محبت کر تو لیتے ہم مگر یہ کام مشکل ہے
محبت میں سہولت کی اجازت بھی نہیں ہوتی

0
30
غزل
مزہ جو ہے کتاب میں
کہاں وہ ہے شراب میں
معاشرہ بدل سکے
شعور ہو نصاب میں
مرا وطن بھی خاص ہو

16
محبت کے رستوں میں مشکل تو ہوگی
محبت محبت سے حاصل تو ہوگی
محبت عجب سا ہے احساس ایسا
یقینا محبت میں خوش دل تو ہوگی
وفاؤں کے بدلے جفائیں ملیں تو
وفاؤں کی آتش میں پاگل تو ہوگی

0
51
غزل
ہم محبت میں ہار بیٹھے ہیں
اس لیے اشکبار بیٹھے ہیں
زندگی کس طرح گزاریں گے
لے کے صدمے ہزار بیٹھے ہیں
اب جو گزرے گی زندگی ہوگی

13
عجیب لوگوں سے واسطہ ہے
قدم قدم پر یہ حادثہ ہے
جو مل کے بیٹھیں تو رنجشیں ہیں
الگ جو بیٹھیں تو فاصلہ ہے
بہار میں ہے خزاں کا موسم
عجب طرح کا یہ سانحہ ہے

0
16
غزل
جب سے دیکھا ہے تمہیں حیران ہیں
اتنے حیراں ہیں کہ پھر حیران ہیں
مل نہ پایا ساتھ تیرا روئے ہم
اتنا روئے ہیں کہ پھر حیران ہیں
آتے جاتے جب تمہیں دیکھا کیے

0
5
33
غزل
کچھ دنوں سے رویا نہیں ہوں میں
مشکلوں میں گویا نہیں ہوں میں
آرزو رہی آرزو نہ ہو
کشمکش میں سویا نہیں ہوں میں
عقل کا تقاضا یہی تھا بس

0
18
نئی غزل
مجھے تیری محبت کی ضرورت ہے قسم لے لو
شرافت کی نزاکت کی تو مورت ہے قسم لے لو
میں تیرا ہوں تری چاہت مجھے مجبور کرتی ہے
مری آنکھوں میں تیری ایک صورت ہے قسم لے لو
تری چاہت مرے دل میں بغاوت ہے روایت سے

0
17
کسی کو دل کے اندر ہی سجا کر رکھ لیا ہوتا
محبت کی کہانی کو چھپا کر رکھ لیا ہوتا
سخاوت کا وہ دریا جو کبھی مجھ سے ملا ہوتا
پیاسوں کو پلا کر بھی بچا کر رکھ لیا ہوتا
کہانی سے جو نکلا تھا بڑے خود سر طریقے سے
اسی کو پھر کہانی میں اٹھا کر رکھ لیا ہوتا

0
23
بھری بزم میں اس نے دیکھا مجھے بس
محبت ہر اک سے تھی چاہا مجھے بس
نگاہوں نے اس کی زمانے کو دیکھا
نگاہوں میں اپنی سجایا مجھے بس
جو رویا تھا اوروں کی چاہت میں بے حد
اسی نے پھر آکر ہنسایا مجھے بس

0
22
مرے دل کو بھاتی ٹریننگ ہے یہ
سبھی کو سکھاتی ٹریننگ ہے یہ
یہاں آ کے پایا مزہ سیکھنے کا
مزے سے سکھاتی ٹریننگ ہے یہ
جو سیکھا تھا ہم نے پرانا ہوا ہے
نیا کچھ سکھاتی ٹریننگ ہے یہ

0
9
پھر سے مل رہے ہوں گے
چہرے کھل رہے ہوں گے
ان کے مسکرانے سے
زخم سل رہے ہوں گے
پت جھڑی کے موسم میں
پھول کھل رہے ہوں گے

0
27
غزل
محبت کے پودے لگا کر رہیں گے
شجر نفرتوں کے جلا کر رہیں گے
ہر اک موڑ پر ہم کھلائیں گے گلشن
وطن کی دلہن کو سجا کر رہیں گے
ترے ساتھ وعدہ وفا کا کیا تھا

23
تن بدن اضطراب میں ہے
حسن سارا حجاب میں ہے
ان کی نظروں سے پی کے جانا
لطف کب وہ شراب میں ہے
دور ان سے جو رہ کے گزرے
زندگی وہ خراب میں ہے

0
24
یہ بستی نہیں اب ہے رہنے کے قابل
مکیں اب نہیں ظلم سہنے کے قابل
کہانی وطن کی سبھی کو پتہ ہے
رہا کچھ نہیں اب تو کہنے کے قابل
سیاست سے لے کر ریاست تلک تو
رہا کچھ نہیں اب تو چلنے کے قابل

0
13
زوال سارا جو آچکا ہے
کمال بن کر وہ چھا چکا ہے
بزور بازو وہ منزلوں کے
نشان سارے مٹا چکا ہے
وہ بات کرتا تو کیسے کرتا
زبان اپنی کٹا چکا ہے

0
30
حال دل کا بتا نہیں سکتے
ویسے کچھ بھی چھپا نہیں سکتے
اتنے مجبور ہو چکے ہیں اب
دکھ بھی اپنا سنا نہیں سکتے
کیسے یہ ملک چھوڑ جائیں ہم
خود کو ہم تو رلا نہیں سکتے

0
27
محبت اثر یوں دکھانے لگی ہے
کہ جاڑے میں ہی یہ جلانے لگی ہے
نہیں مجھ کو خود پر رہا اب تو قابو
مجھے اس کی چاہت ستانے لگی ہے
جسے ہم نے چاہا زمانے سے بہتر
وہی ہم کو اب تو بھلانے لگی ہے

0
64
کبھی ہم بھی بجلی بنا پائیں گے
بنا گیس کھانا پکا پائیں گے
ہے غیرت سبھی کچھ ہمارے لیے
یہ لوگوں کو اپنے سکھا پائیں گے
کریں گے وطن کے ہمیں فیصلے
یہ جرات کبھی ہم دکھا پائیں گے

0
32
روایت توڑ بیٹھے ہیں
کتابیں چھوڑ بیٹھے ہیں
پڑھے گا کون اب ان کو
کتابیں جھوٹ لگتی ہیں
پڑھا بھی دیں اگر ساری
عمل پھر کون کرتا ہے

64
خطوط سارے جلا دیے ہیں
معاشقے بھی بھلا دیے ہیں
بنا پھلوں کے کھڑے تھے جو بھی
شجر وہ بوڑھے کٹا دیے ہیں
نہیں تھا جن کا کوئی بھی معنی
حروف ایسے مٹا دیے ہیں

0
20
خطوط سارے جلا دیے ہیں
معاشقے کے بھی بھلا دیے ہیں
بنا پھلوں کے کھڑے تھے جو بھی
شجر بھی سارے کٹا دیے ہیں
نہیں تھا جن کا کوئی بھی معنی
حروف سارے مٹا دیے ہیں

21
سمندر میں اترنا چاہتا ہوں
میں اب تجھ سے بچھڑنا چاہتا ہوں
یوں شوق دل لگی میں بارہا اب
نہیں تتلی پکڑنا چاہتا ہوں
رہا میں عالم مستی میں چلتا
مگر اب تو میں رکنا چاہتا ہوں

0
36
وہ راز محبت چھپا بھی ٰرہی ہے
وہ راز محبت بتا بھی رہی ہے
کیے تھے جو اس نے محبت میں وعدے
سبھی کے سبھی وہ نبھا بھی رہی ہے
چلے اس کے نقش قدم پر ہے یوں وہ
کہ نقش قدم وہ مٹا بھی رہی ہے

0
44
کبھی ہم کو ان سے محبت ہوئی تھی
نہ ان سے کوئی پھر شکایت ہوئی تھی
وضاحت کروں اس میں لمحے کی کیسے
اچانک جو ان کی زیارت ہوئی تھی
جو گزرے تھے لمحے رفاقت میں ان کی
لگے مجھ کو یوں کہ عبادت ہوئی تھی

0
38
سیاست میں یہ کیا مقام آرہے ہیں
یوں لگتا ہے الٹے چلے جا رہے ہیں
یوں لگتا کہ مجرم سبھی ہیں یہاں پر
تبھی تو سبھی ہی سزا پا رہے ہیں
سرابوں کی بستی کے سب رہنے والے
خوشی سے ہی دھوکے سبھی کھا رہے ہیں

0
43
عشق بھی تو کمال کرتا ہے
جینا آخر محال کرتا ہے
عقل کہتی ہے تو سنبھل کے چل
عشق کا دل خیال کرتا ہے
اس کی آنکھیں ہمیں بتاتی ہیں
کوئی ان سے سوال کرتا ہے

0
34
گئے دنوں کا ملال ہوتا
تو رابطہ کچھ بحال ہوتا
تمھارا ہر دم خیال ہوتا
خوشی سے میں تو نہال ہوتا
خلوص ہوتا جو چاہتوں میں
تو چاہتوں میں کمال ہوتا

45
بارشوں کا موسم ہے
چاہتوں کا موسم ہے
رات بھر جگا ہوں میں
سازشوں کا موسم ہے
ساتھ اس کا چاہوں میں
قربتوں کا موسم ہے

0
46
محبت کی دنیا بسانے لگے ہیں
حقیقت میں نفرت مٹانے لگے ہیں
جسے ہم نے آنکھیں ملانا سکھایا
ہمیں سے وہ آنکھیں چرانے لگے ہیں
جسے ہم نے ڈھونڈا بڑی چاہتوں سے
کسی اور کا گھر بسانے لگے ہیں

0
48
موڑ نازک سے گزر کیوں نہیں جاتے
اتنا ڈرتے ہو تو گھر کیوں نہیں جاتے
اپنی مرضی سے پرندے سبھی اڑتے
دیس کو چھوڑ شجر کیوں نہیں جاتے
اپنی چاہت سے اگر جی نہیں سکتے
اپنی مرضی سے وہ مر کیوں نہیں جاتے

0
41
حال دل کیسے کہوں
جیسے ہے ویسے کہوں
وہ مرا بن کے رہے
ایسے بھی کیسے کہوں
گل بدن ساتھی مرا
ساتھی کو ایسے کہوں

0
38
سبھی نے بتایا
سمجھ کچھ نہ آیا
بھروسہ تھا جس پر
اسی نے ستایا
جسے دی محبت
اسی نے رلایا

0
36
عجیب چکر چلا رہے ہیں
زمیں فلک سے ملا رہے ہیں
کبھی نہ ایسا کسی نے دیکھا
وطن کو جیسے چلا رہے ہیں
کوئی تو ایسی پڑی ضرورت
جو ہاتھ سب سے ملا رہے ہیں

0
41
ایک مدت سے ہم سفر میں ہیں
چل رہے ہیں مگر بھنور میں ہیں
جس نظر کی سبھی کو خواہش ہے
ہم مسلسل اسی نظر میں ہیں
بھول پن میں پتہ نہیں چلتا
خوبیاں ساری اک بشر میں ہیں

0
43
دل میں تیرے رہ رہا ہوں
غم بھی تیرے سہ رہا ہوں
تو ہی میری زندگی ہے
سب سے میں یہ کہہ رہا ہوں
شہر تیرا چھوڑ کر بھی
شہر تیرے رہ رہا ہوں

0
38
ساری دنیا کے غم ہمارے ہیں
کام سب کے اگر سنوارے ہیں
عشق تیرے میں ہم رہے بے خود
ایسے دن ہم نے بھی گزارے ہیں
تیرے قدموں سے جو لگے پتھر
ہم کو پتھر بھی وہ ستارے ہیں

0
47
ہم کیسے جی رہے ہیں
خود زہر پی رہے ہیں
کس طرح ہم یہ کہتے
ہم ہونٹ سی رہے ہیں
جب سے ہے آنکھ کھولی
تنگ دست ہی رہے ہیں

36
گلاب رت میں جلا دیا ہے
یہ کیسا تو نے صلہ دیا ہے
یہ رنجشیں بھی عجیب ٹھہریں
کہ غم بھی سہنا سکھا دیا ہے
جو قرض تیرا تھا مجھ پہ واجب
وہ جان دے کے چکا دیا ہے

0
37
کب کوئی درد آ کے جاتا ہے
اب تو شہروں سے خوف آتا ہے
کوئی ملتا نہیں کسی سے اب
ہر کوئی اپنے گھر کا کھاتا ہے
حال دل کا کسے سنایئں ہم
ہر کوئی بہرا ہوتا جاتا ہے

30
بڑی مشکل آسان کر لی گئی ہے
تمنا ہی ہلکان کر لی گئی ہے
محبت کے جذبوں کا یہ ہے نتیجہ
شناساں وہ انجان کر لی گئی ہے
کہا اس کا مانا غلط بھی ہے ہم نے
انا اپنی قربان کر لی گئی ہے

41
علاج غم محبت کی فراوانی سے ملتا ہے
سبق کچھ سیکھنے کو ایک نادانی سے ملتا ہے
کسی درویش سے ملتے علاج روح کی خاطر
سکون دل کہاں دنیا میں سلطانی سے ملتا ہے
یہ دریا کی روانی بھی ہے پیغام عمل پیہم
سبق کوئی جو سیکھے تو یہ آسانی سے ملتا ہے

0
33
محبت ہمیں وہ سکھایا کرے گا
دل و جان لے کے رلایا کرے گا
جو قسمت نے لکھ دی لڑائی کبھی تو
لڑائی میں ہم کو منایا کرے گا
جو پوچھا کسی نے علاج محبت
مرا ہی پتہ وہ بتایا کرے گا

0
63
کبھی ان سے ملاقات ہو جاتی
محبت کی شروعات ہو جاتی
محبت کے سوالی کی وہ چاہت
سوالوں کے جوابات ہو جاتی
بھری محفل میں چپ چاپ بیٹھا ہوں
مری چپ ہی بیانات ہو جاتی

0
34
ملا کے وہ آنکھیں چلا ہی گیا تھا
ہمیں تو قسم سے جلا ہی گیا تھا
اسےدیکھ کر ہم سنبھل ہی نہ پائے
وہ خطرے کی گھنٹی بجا ہی گیا تھا
ہمیں خود پہ قابو رہا نہ قسم سے
شراب ایسی ہم کو پلا ہی گیا تھا

0
35
علاج غم یہی ہے اب
علاج غم کبھی نہ ہو
جو خواب دن میں دیکھ لے
وہ آنکھ نم کبھی نہ ہو
ستم کرے جو بے وجہ
مرا صنم کبھی نہ ہو

0
31
مسلسل مجھے در بدر کر رہی ہے
کہ چاہت تری مجھ میں گھر کر رہی ہے
مریض وفاتھے شب غم نے مارا
علاج شب غم سحر کر رہی ہے
ستاروں سے آگے نکل ہم بھی جاتے
کہ الٹا ہی منزل سفر کر رہی ہے

2
52
مسلسل مجھے در بدر کر رہی ہے
کہ چاہت تری مجھ میں گھر کر رہی ہے
ہیں روئے تمھارے لیے آج اتنا
علاج شب غم سحر کر رہی ہے
سوائے ترے مجھ کو کوئی نہ بھائے
رفاقت تری یوں اثر کر رہی ہے

31
الہی کو دکھڑے سنا کے تو دیکھو
نصیبوں کو اپنے بنا کے تو دیکھو
ملے گا سکوں تم کو بے حد زیادہ
ندامت کے آنسو بہا کے تو دیکھو
ملے گا تمھیں حد سے زائد منافع
تجارت خدا سے بنا کے تو دیکھو

0
36
رواجوں کی دنیا میں ہم رہ رہے ہیں
بنا ہی خطا کے سزا سہ رہے ہیں
قصور اس میں اپنا کوئی بھی نہیں ہے
اندھیرے میں ہم سب یہی کہہ رہے ہیں
جو بویا تھا ہم نے وہی تو ہے کاٹا
یوں قدرت کے جنگل میں ہم رہ رہے ہیں

0
30
ترے دل کا مسکن بھی مہنگا پڑا ہے
تمہیں چھوڑ کر غم ہی سہنا پڑا ہے
تمھارے بنا ہم ادھورے ہیں جانم
ہمیں تم سے اکثر یہ کہنا پڑا ہے
ترے دل کے خیمے کو آباد کر کے
اکیلے بھی ہم کو ہی رہنا پڑا ہے

0
41
بدلے میں محبت کے محبت کہاں ملتی ہے
ہم اہل محبت کو یہ دولت کہاں ملتی ہے
یہ بات الگ ہے کہ ہمیں بھول گئے ان کو
یادوں میں بسا کر بھی قرابت کہاں ملتی ہے
اس دور ترقی میں ہوا ہے سبھی کچھ الٹا
سچائی کے بدلے میں صداقت کہاں ملتی ہے

0
36
وطن کو جو رہنے کے قابل بناتے
نہ یوں نو جواں چھوڑ کر اس کو جاتے
کتابوں کی تقدیس جو ہم سکھاتے
تماشا نہ دستور کا یوں بناتے
بہاروں کے موسم خزاں یوں نہ ہوتی
جو گلشن کو اپنے سبھی ہم سجاتے

0
31
کوئی نرمی سے اب بولتا بھی نہیں
ترش لفظوں پہ رس گھولتا بھی نہیں
بن گیا اتنا گستاخ آخر وه کیوں
اپنے لفظوں کو اب تولتا بھی نہیں
من کی دنیا ڈبو کر وه خوش ہے بہت
قفل دل پر لگا کھولتا بھی نہیں

0
63
مجھ کو حاصل جو تیری محبت نہیں
مجھ کو پھر تو جہاں کی ضرورت نہیں
آرزو میں تری چل رہی زندگی
آرزو کے سوا یہ سلامت نہیں
گر سفر میں پڑے جو مصیبت کبھی
ہم سفر چھوڑ دوں یہ رفاقت نہیں

0
76
من میں اک تصویر بنتی جا رہی ہے
تن کی اک تاثیر بنتی جا رہی ہے
خواب میں نے جو محبت میں تھے دیکھے
ان کی اک تعبیر بنتی جا رہی ہے
اس کی چاہت کا نتیجہ مجھ سے پو چھو
پیر کی زنجیر بنتی جا رہی ہے

0
46
من کی دنیا پہ وہ پھر حکومت کرے
کوئی تو ہو جو مجھ سے محبت کرے
میرے جذبوں کی منڈی کھلی ہے پڑی
مجھ کو مل جائے وہ جو تجارت کرے
اہل دانش میں رہ رہ کے اکتا گیا
ساتھ میرے چلے جو حماقت کرے

0
42
عمر گزری تجربوں میں
منزلوں کی چاہتوں میں
درد بھولے ہم بھی سارے
عاشقی کی راحتوں میں
ہم پہ گزری ہم ہی جانیں
چاہتوں کی رنجشوں میں

0
57
معلم کو کیسی جزا مل رہی ہے
بنا ہی خطا کے سزا مل رہی ہے
دیا تھا سبق جس نے صبر و وفا کا
تو بدلے میں اس کو سزا مل رہی ہے
تماشا یہ ہم نے عجب آج دیکھا
جزاؤں کے بدلے سزا مل رہی ہے

0
54
بوجھل سے لگ رہے ہو استاد تو نہیں ہو ؟
فکر معاش میں ہو استاد تو نہیں ہو ؟
رستے بنا کے دیتے تھے تم جو سب کو صاحب
رستے میں خود ہو بیٹھے استاد تو نہیں ہو ؟
سب کو جو دی ہے عزت سب محترم ہیں ٹھہرے
عزت جو ڈھونڈتے ہو استاد تو نہیں ہو ؟

0
32
ملا ہے تو جب سے تو فرصت نہیں ہے
مجھے اب تو کوئی بھی حسرت نہیں ہے
ملی ہے مجھے تجھ سے اتنی محبت
مجھے اب کسی سے بھی نفرت نہیں ہے
ملا ہوں جو تم سے تو جانا ہے میں نے
محبت تو دولت ہے غربت نہیں ہے

0
40
اچھی لگتی ہیں ہوائیں مجھ کو
جو ترے پاس بلائیں مجھ کو
کیسے ان سے میں کنارہ کر لوں
تری یادیں جو رجھائیں مجھ کو
مجھے جی کر نہیں کرنا کچھ بھی
جو ترے خواب سلائیں مجھ کو

0
44
خموشی سے اتنا تو میں بھر گیا تھا
جو چیخا نہ ہوتا تو بس مر گیا تھا
زمانے میں عزت مری بڑھ گئی تھی
نکل کر گلی سے تری گھر گیا تھا
محبت کے مارے کیے کام ایسے
جو ہرگز نہ کرتا وہ بھی کر گیا تھا

49
ستاروں سے آگے کی باتیں کریں ہم
اسی کام میں صرف شامیں کریں ہم
بدل دے دلوں کی جو حالت ہماری
کسی سے تو یوں چار آنکھیں کریں ہم
زمانے کے غم بھی مٹا کر جو رکھ دیں
کوئی یاد ایسی بھی یادیں کریں ہم

0
78
محبت مری جو اثاثہ ہوئی ہے
یہ جذبات کا بھی خلاصہ ہوئی ہے
مرے دل کا نقشہ بڑا تھا سہانا
محبت ہی دل کا خرابہ ہوئی ہے
محبت سے پہلے تھا مایوس میں بھی
محبت ہی دل کا دلاسہ ہوئی ہے

0
45
وطن سے دور جا رہے ہیں لوگ کیوں
کہ ماں کو خود جلا رہے ہیں لوگ کیوں
وطن کو اپنے چھوڑ کر بھنور میں ہی
دیارِ غیر جا رہے ہیں لوگ کیوں
سبق پڑھا تھا سر اٹھا کے جینے کا
تو اپنا سر جھکا رہے ہیں لوگ کیوں

0
47
جہاں میں انجمن سی ہیں تری آنکھیں
قسم سے بانکپن سی ہیں تری آنکھیں
میں جاں اپنی بھی دلبر تجھ پہ واروں گا
مرے اچھے وطن سی ہیں تری آنکھیں
تری آنکھوں کی گہرائی بڑی دلکش
ترے ہی بانکپن سی ہیں تری آنکھیں

64
بن ترے مجھ کو کیا لگ رہی ہے
زندگی اک سزا لگ رہی ہے
بے وفا کو جو میں نے تھا چاہا
بس یہی اک خطا لگ رہی ہے
جان کر ہم شفا جس کو لائے
اب وہی اک وبا لگ رہی ہے

0
38
غزل
وہ گھڑی غم کی گھڑی ہے
جس میں وہ تنہا کھڑی ہے
جس کی خاطر چپ کھڑا ہوں
گفت گو پر وہ اڑی ہے
تھی تکبر سے بھری جو

0
52
مجبور دل پہ اتنا کبھی نہ زوال ہو
کھانے کو قورمہ ہو کھلانے کو دال ہو
کھالوں جو قورمہ تو ہضم بھی میں کر سکوں
محبوب ہی کے گھر نہ مرا انتقال ہو
شوق شکم پرستی نے رسوا مجھے کیا
ذوق شکم پرستی میں پھر بھی کمال ہو

146
محبت میں دھوکے بھی کھائیں گے ہمدم
دلوں کی یہ باتیں چھپائیں گے ہمدم
مرا دل رہا جو نہ قابو میں میرے
گلی میں تری یوں ہی جائیں گے ہمدم
خبر جو ملے گی کہ آئیں گے دلبر
تو گلشن بھی اپنا سجائیں گے ہمدم

0
76
فروعی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں
برے ہیں رذائل میں الجھے ہوئے ہیں
مرا ہے قبیلہ بھی افضل تیرے سے
انھی ہی فضائل میں الجھے ہوئے ہیں
ہے خصلت ہماری بھی اعلی سبھی سے
انھی ہی خصائل میں الجھے ہوئے ہیں

0
74
حبس کے موسم میں ہوا لانی ہوگی
آگ کے دریا میں گھٹا لا نی ہوگی
عارضے دیرینہ ہیں دل کے سبھی کو
ڈھونڈ کر کوئی بھی شفا لانی ہوگی
عارضہ دل کو جو ختم کر دے جڑ سے
ایسی تو کوئی بھی دوا لا نی ہوگی

0
45
کوشش ہے سب کی آٹا
منزل ہے سب کی آٹا
ہے صبح سب کی آٹا
ہے شام سب کی آٹا
ہے خواب سب کا آٹا
تعبیر سب کی آٹا

0
83
سبھی اس پہ یوں ہی نہیں تو فدا ہیں
بہاروں کے منظر الگ ہیں جدا ہیں
یہ قدرت کی ساری ہی منظر کشی ہے
یہ رنگوں میں لکھی ہوئی شاعری ہے
یہ سارے ہی رنگوں کے جو سلسلے ہیں
یہ فطرت کے جوبن کے تو سلسلے ہیں

0
61
تری جو آنکھوں میں نم نہیں ہے
مجھے بھی پھر کوئی غم نہیں ہے
بے درد لوگوں کے ساتھ رہنا
کسی اذیت سے کم نہیں ہے
جو شان دستار بن گئی تو
یہ جان دے کر بھی غم نہیں ہے

2
80
غزل
ہمیں سب خبر ہے کہ رہزن کہاں ہے
ہے یہ بھی پتا کے یہاں ہے وہاں ہے
یہاں کون لیڈر یہاں کون رہزن
قسم سے سبھی پر سبھی کچھ عیاں ہے
مرے دیس میں ہے عجب یہ روایت

0
47
گردشِ حا لات پہ رویا نہ کرو
اپنی ہی عا دات پہ رویا نہ کرو
فکر کرو اپنے وطن کی مری جاں
جنگ کا امکاں ہے یوں سویا نہ کرو
عقل کرو صاحب دانش بھی بنو
گیت سبھی کے یوں ہی گایا نہ کرو

89
ہر اک سے ہے پوچھا خسارہ ہے کیسے
ہر اک کو پتا ہے خسارہ ہے کیسے
خسارے سے جب بات آگے چلی تو
بتایا گیا پھر خسارہ ہے کیسے
خسارہ تھا پہلے خسارہ ہے اب بھی
سبھی جا نتے ہیں خسارہ ہے کیسے

0
70
غزل برائے تنقید و اصلاح
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
مرے ہمدم مرے دلبر کبھی یوں بھی نہیں ہوتا
مرا دلبر بنے پتھر کبھی یوں بھی نہیں ہوتا
اگرچہ حادثے کچھ کر بھی سکتے ہیں مگر پھر بھی
کوئی برتر بنے کمتر کبھی یوں بھی نہیں ہوتا

0
62
تری یادیں ستاتی ہیں مرے بچپن کے حاصل پور
ترے قصے سناتی ہیں مرے بچپن کے حاصل پور
میں تجھ کو یاد کرتا ہوں میں تجھ سے باتیں کرتا ہوں
تری یادیں لبھاتی ہیں مرے بچپن کے حاصل پور
میں جتنا دور جاتا ہوں تو اتنا پاس آتا ہے
تو مقناطیس جیسا ہے مرے ساجن کے حاصل پور

55
تجسس بڑھانا مرا کام ہے
بہت کچھ سکھا نا مرا کام ہے
جو سیکھا تھا میں نے پرانا ہوا
نیا پن سکھانا مرا کام ہے
ہیں بچوں کو درپیش مسلے بہت
مسائل گھٹانا مرا کام ہے

0
128
جو چہرے پہ اپنے ہے سہرے لیے
نصیبوں میں ہے درد دہرے لیے
کشش تھی بلا کی یہ ہونا ہی تھا
ا مڈ آئے ملا بھی گجرے لیے
جو برسوں سے تیرا طلب گار تھا
وہ جذبے ابھی بھی ہے سجرے لیے

0
76
وطن اک بنایا تھا اپنا الگ سے
گزاریں گے سب مل کے اپنی الگ سے
ہے تہذیب اپنی جداگانہ سب سے
ہے تاریخ اپنی جداگانہ سب سے
نہ ہوگی کوئی ظلم کی بات اس میں
ملے گا سبھی کو ہی انصاف اس میں

0
123
زمانے میں اس کا چلن ہی جدا ہے
جدا ہو کے وہ مجھ کو پھر سے ملا ہے
وہ دنیا رواجوں میں جو کھو گئی ہے
اسی سے بغاوت یہ کرکے چلا ہے
سزائیں جفائیں سبھی اس نے جھیلیں
مروت میں پھر بھی وہ کرتا دعا ہے

0
70
غزل
مقدر میں جس کے فضا بن گئی ہے
وہ میری ہمیشہ دعا بن گئی ہے
جیوں جس کی خاطر زمانے میں تنہا
وہ میری ہمیشہ بقا بن گئی ہے
ملے مجھ کو راحت اسی کی طرف سے

0
101
مرے دل کی بستی فنا ہو گئی ہے
وہ ہستی جو مجھ سے جدا ہو گئی ہے
دلوں کے مرض یوں تو پھیلے نہ دیکھے
تسلسل میں اب یہ وبا ہو گئی ہے
اسے میں نے چاہا اسے میں نے پوجا
یہی تو فقط اک خطا ہو گئی ہے

0
77
خزاں کے زرد پتوں کی سی ہے قسمت مگر پھر بھی
نظارے ڈھونڈتے پھرنا کہاں آسان ہوتا ہے
قبیلے کے ہی سارے لوگ جب تنہا کریں تو پھر
سہارے ڈھونڈتے پھرنا کہاں آسان ہوتا ہے
ندی کے بیچ میں گرداب میں چکر لگا کر بھی
کنارے ڈھونڈتے پھرنا کہاں آسان ہوتا ہے

0
97
بدلے گا نظام یہ سارا خود
سبھی آس لگائے بیٹھے ہیں
کوئی بھی آ جائے طاقت میں
پلکوں کو بچھائے بیٹھے ہیں
آنکھوں کو جہاں پہ اٹھانا تھا
آنکھوں کو جھکائے بیٹھے ہیں

0
89
بڑا ہی عجب ایک آلہ ملا ہے
فدا اس پہ جاں ہے یہ جب سے ملا ہے
نہ ہمسر ہے کوئی بھی اس کا جہاں میں
جہاں سارا لگتا ہے اب یہ جہاں میں
مسائل کا اس میں جنم ہو گیا ہے
غضب کب غضب تھا غضب یہ ہوا ہے

0
822
نشانے بھی دشمن کے مجھ کو لگے پھر
چراغوں کو اپنے بجھا کر بھی دیکھا
سبھی آندھیوں نے جلایا ہے مجھ کو
ہواؤں سے دل کو لگا کر بھی دیکھا
ستمگر نہ جانے ستم کے سوا کچھ
وفاؤں میں خود کو جلا کر بھی دیکھا

0
68
ملیں جس کو ہم بھی بڑی چاہتوں سے
ضروری نہیں وہ ہمارا ہو جائے
جسے تم بھی چاہو بڑی چاہتوں سے
ضروری نہیں وہ تمہارا ہو جائے
سنبھل کر چلو تم بھی گرنے سے پہلے
ضروری نہیں وہ سہارا ہو جائے

0
92
یہاں تو ہر کوئی مطلب کی بات کرتا ہے
عجیب ہے وہ جو خدمت کی بات کرتا ہے
یہ زندگی تو محبت کے واسطے کم ہے
عجیب ہے وہ جو نفرت کی بات کرتا ہے
کمی تو کوئی نہیں ہے یہاں بھی مشرق میں
عجیب ہے وہ جو مغرب کی بات کرتا ہے

0
58
اصولوں پہ جب چل پڑے ہم تو سمجھو
نیا کچھ ہوا ہے الگ کچھ ہوا ہے
قطاروں میں جب چل پڑے ہم تو سمجھو
نیا کچھ ہوا ہے الگ کچھ ہوا ہے
کتابوں پہ جب چل پڑے ہم تو سمجھو
نیا کچھ ہوا ہے الگ کچھ ہوا ہے

63
میں جس راہ پر چل پڑا ہوں خوشی سے
بزرگوں کا میرے یہ رستہ نہیں تھا
چلن جو ہے میرا چلن یہ برا ہے
بزرگوں کا میرے چلن یہ نہیں تھا
عمل جو ہے میرا عمل یہ برا ہے
بزرگوں کا میرے عمل یہ نہیں تھا

0
75
تھی چاہت مجھے جس کی سب سے زیادہ
اسی نے ہی چاہت ادھوری میں رکھا
تھی قربت مجھے جس سے سب سے زیادہ
اسی نے مجھے بس یوں دوری میں رکھا
ملے تھے جسے ہو کے مخلص بہت ہم
اسی نے ہمیں جی حضوری میں رکھا

0
76
نفس کی نادانیاں
عشق کی رسوائیاں
قلب کی رنگینیاں
عقل کی حیرانیاں
خلق کی تابانیاں
جہل کی تاریکیاں

0
91
زندگی اچھی نہیں ہے
بن ترے کچھ بھی نہیں ہے
سادگی تیری پہ مرتے
یہ تجھے جچتی نہیں ہے
دل جلی تیری کہانی
مجھ کو سچ لگتی نہیں ہے

0
94
وطن میں اپنے ہی رہنا ہوگا
حقوق لینے پہ اٹھنا ہوگا
کمی نہیں ہے مرے وطن میں
کسی بھی شے کی یہ کہنا ہوگا
ہیں دنیا ساری میں سب سے آگے
یقین اس پر بھی رکھنا ہوگا

0
91
پرانے دور کے اندازے کام کے نہیں ہیں اب
جدید دور کے افسانے نام کے نہیں ہیں اب
پرانے دور کے میخانے کام کے نہیں ہیں اب
جدید دور کے ہنگامے نام کے نہیں ہیں اب
پرانے دور کے شکرانے کام کے نہیں ہیں اب
جدید دور کے ظہرانے نام کے نہیں ہیں اب

0
75
انداز کیسے بدلے زمانے کے
حیران ہیں نہیں ہیں بتانے کے
فن جانتے نہیں ہیں لبھانے کے
گر جانتے ہیں سارے ستانے کے
شیریں کلام ہم سے نہیں ہوتا
ماہر ہیں ہم فقط ہی لڑانے کے

81
خزاں کے زرد پتوں کی سی ہے قسمت مگر پھر بھی
نظارے ڈھونڈتے پھرنا کہاں آسان ہوتا ہے
قبیلے کے ہی سارے لوگ جب تنہا کریں تو پھر
سہارے ڈھونڈتے پھرنا کہاں آسان ہوتا ہے
ندی کے بیچ میں گرداب میں چکر لگا کر بھی
کنارے ڈھونڈتے پھرنا کہاں آسان ہوتا ہے

1
77
مرے ہمدم مرے دلبر کرو مجھ سے نئی باتیں
نئی باتیں سکھانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
مرے محبوب تیری ساری باتیں یاد ہیں مجھ کو
کئی یادیں مٹانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
یہ سناٹے تری یادوں کے مجھ کو ڈستے رہتے ہیں
نئے مرہم بنانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے

0
45
نہ ہارا ہوں میں اور نہ جیتا ہے دل بر
عجب ہو رہی ہے لڑائی ہماری
میں دل میں ہوں اس کے وہ دل میں ہے میرے
عجب ہو رہی ہے جدائی ہماری
رقیبوں نے مل کر دعا ہم کو دی ہے
عجب ہو رہی ہے دوائی ہماری

0
87
سمجھ کچھ نہیں آ رہی ہے مجھےتو
سمجھ گر لگے تو مجھے بھی بتانا
سنائی نہیں دے رہا ہے مجھے تو
تمہیں کچھ سنے تو مجھے بھی بتانا
دکھائی نہیں دے رہا ہے مجھے تو
تمھیں کچھ دکھے تو مجھے بھی بتانا

0
103
الہی قلم کو مرے کر رواں
الہی قلم سے میں نعتیں لکھو ں
الہی قلم میں یہ تاثیر دے
میں لکھوں تو بس میں بھی نعتیں لکھوں
خوشی تو ہے بننے کی شاعر مجھے
خوشی یہ بھی ہے کے میں نعتیں لکھوں

0
75
سبھی کہتے ہیں کہ استاد اچھے نہیں ہیں
کسی نے سوچا کہ کیوں اچھے نہیں ہیں
یہاں بنتے ہیں سبھی شوق سے افسر
افسر بھی ہیں کہتے استاد اچھے نہیں ہیں

0
82
یہ نغمے وطن کے بھی گاؤ خوشی سے
حقائق سے پردے اٹھاؤ خوشی سے
مرا یہ وطن ہے میں اس کا ہوں مالک
یہ احساس تم بھی جگا ؤ خوشی سے
مرے اس وطن میں ہو منشا بھی میری
مرے حکم کو تم نبھاؤ خوشی سے

0
86
ہر اک سے ہے پوچھا ذرا تم بتاؤ
یہ فصل تبسم کہاں ہم ا گائیں
ہر اک سے ہے پوچھا ذرا تم بتاؤ
یہ نغمے وفا کے کہاں ہم سنائیں
ہر اک سے ہے پوچھا ذرا تم بتاؤ
یہ دریا سخن کے کہاں ہم بہائیں

0
85
حال دل تجھ کو بتائیں کیسے
تجھ سے ہم خود کو بچائیں کیسے
کب سے تم ہم کو رلائے جاؤ
ہم یہ سب کو ہی بتائیں کیسے
سن کے تم ان سنی کردیتے ہو
سن سنا کے بھی سنائیں کیسے

0
53
تیرے جو دو سخا کی بات کروں
جسم بے سایہ کی میں بات کروں
تیرے سائے کے سائے کو ترسوں
نور خالق جہاں کی بات کروں
چاند ٹکڑے ہوا ترے کہے پر
میں تو مختار کل کی بات کرو ں

0
87
مقدر ہمارا بناتے تھے وہ
ہمیں آسماں پر بٹھاتے تھے وہ
شرافت دیانت سکھاتے تھے وہ
محبت کا خوگر بنا تے تھے وہ
ہمیں دیکھ کر مسکراتے تھے وہ
چمن میں ہمیں تو سجاتے تھے وہ

0
47
اندھیروں کو مٹایا جا سکتا ہے
چراغوں کو جلایا جا سکتا ہے
اگر اخلاص پیدا ہو سب میں تو
یہ گلشن بھی سجایا جا سکتا ہے

104
بچوں کے نتیجوں سے پریشان ہیں کیوں
اپنے ہی عوامل سے انجان سے کیوں
شکر جو ملائی نہیں پھولوں میں کبھی
گل قند بھلا نکلے نمک دان سے کیوں

69
مجھ سے میرا دوست بھلایا نہیں جاتا
میری آنکھوں سے ترا سایہ نہیں جاتا
خود سے دور میں ہو جاتا ہوں کئی بار
تجھ سے دور بھی مجھ سے جایا نہیں جاتا

108
وہ جاتے جاتے بتا کر نہیں گیا
وہ کوئی شکوہ سنا کر نہیں گیا
اداس سا وہ گیا احساں کر گیا
وہ گاتے گاتے رلا کر نہیں گیا

0
79
جدائی کا سبب ہم بتائیں کیوں
کہانی اپنی بھی ہم سنائیں کیوں
تری یادیں محبت کی یادیں ہیں
جوانی اپنی بھی ہم رلائیں کیوں

0
106
اس کے جانے سے گئی رونق ساری
جس کے ہونے سے تھی رونق ساری
اس کے جانے سے یہ جانا سب نے
بس اس کے دم سے تھی رونق ساری

78
کوئی جو تیری آنکھ کا تارا ہوتا
اس پہ میں نے اپنی جاں کو وارا ہوتا
تو جو میرا ساتھی اگر ہوتا خوش دل
خوش نصیبی تجھ کو میں نے چاہا ہوتا

0
77
کب کا وہ تو روٹھ چکا ہوتا
الفت سے اگر نہ باندھا ہوتا
میں کب سے اکیلا رہتا ہوتا
رشتوں نے اگر نہ جکڑا ہوتا
سر درد وہ نا ہو تا بے دردی
ہر وقت جسے نہ پکڑا ہوتا

0
78
نظمیں پڑھ کر مجھ کو خود بھی
نظمیں لکھنی آگئی ہیں

0
63
اندھیروں کو مٹانے کا ارادہ دیکھ کر
وہ روشنی میں ایک جگنو باندھ رکھا ہے

157
میرے اپنوں کو میرا ہونا اچھا نہیں لگتا
اپنوں کو مجھے تو کبھی کھونا اچھا نہیں لگتا
دل بیزار ہیں وہ سارے اچھے کاموں سے
ان کو جو اچھا لگے ہے مجھے اچھا نہیں لگتا

78
آپ بھی اتفاقا ہی ہوئے زاہد
ورنہ زاہد کوئی خود سے نہیں ہوتا

80
جو فطرت ہمیں نے بگاڑی تھی خود ہی
ؤہ فطرت ہمیں کر کے سیدھا رہے گی
جو دریا کے گھر کو اجاڑا تھا ہم نے
سو بدلہ وہ ہم سے بھی لے کر رہا ہے
نظام خدا کا یہ عادی ہے پانی
نظام خدا کو ہمیں نے ہے چھوڑا

82
تجھ سے مل کر یہی جانا مری جاناں
زندگی وہ جو تیرے ساتھ میں گزرے

83
گھر جو پانی کے گھر میں ہوگا پانی تو آئے گا
رستہ پانی کا رستہ ہو تو پانی تو آئے گا

67
ایک دریا میرے گھر رہنے لگا ہے
مجھ کو اپنے سے بھی ڈر رہنے لگا ہے
کاش میں بھی پنچھی کے جیسا ہی ہوتا
نسل انساں سے تو ڈر رہنے لگا ہے

72
پانی جو ذخیرہ کر لیتے
صحرا کو بھی جنگل کر لیتے
پھر بھوکا نہ سوتا کوئی بھی
خوش حال بھی سب کو کر لیتے

0
61
لگتا ہے خوں انسانی بہہ رہا ہے
چاروں جانب یوں پانی بہہ رہا ہے
ہم کو تو بے حسی نے جکڑا ہے
بےحس ہے آنکھ کب پانی بہہ رہا ہے

66
فکروں کی فکر کیوں کرے کوئی
اتنی بھی فکر کیوں کرے کوئی
جب بنا سوچے خوش ہیں سارے تو
مفت کی فکر کیوں کرے کوئی

0
88
سنے تھے جو قصے بزرگوں سے ہم نے
وہ قصے بھی ہم کو بھلانے پڑیں گے
عمارت نئی جو بنانی ہو ہم کو
تو بنیاد پھر سے بنانی پڑے گی
نہایت ادب سے گزارش ہے میری
وہ رستے پرانے مٹانے پڑیں گے

65
میری دعا ہے میرا وطن یہ
روشن ستاروں کی طرح چمکے
میرے خدا میرے اس وطن میں
کوئی نا راتوں کو بھوکا سو ئے
میرے وطن کی یہ ارض مقدس
قرآن وسنت کی سرزمیں ہو

0
85
ملے تھے جب بھی ان سے ہم ہوئے تھے خود سے اور تنہا
اگر نہ ملتے ان کو ہم تو خود کے ساتھ رہتے ہم

0
67
چلو پھر سے ہم پڑھانے لگتے ہیں
ایسا کرنے میں زمانے لگتے ہیں
روٹھنے والوں سے ملتا کون ہے
چلو ہم ان کو منانے لگتے ہیں

0
77
ہاتھوں میں ہاتھ دیا کرتے ہیں
سچوں کا ساتھ دیا کرتے ہیں
آندھی جتنی بھی چھا جائے ہر سو
چراغوں کا ساتھ دیا کرتے ہیں

77
بہانے بنانے کوئی تم سے سیکھے
وفا کے ترانے کوئی تم سے سیکھے
اشاروں سے آنکھوں کے توڑو ہو دل تم
غضب کے نشانے کوئی تم سے سیکھے

78
سیدھا چلو گے دقت تو ہوگی
سب کے بنوگے دقت تو ہوگی
سب کے جو ہوگے کچھ بھی نا ہوگا
اپنے بنو گے دقت تو ہوگی

70
غلطی جو کرے گا وہ پریشان بھی ہوگا
قانون جو ہوگا تو چالان بھی ہوگا
نا کرنا کبھی بھی تو نقصان کسی کا
نقصان کرے گا تو نقصان بھی ہوگا

1
74
کچھ بھی ایسا مت کیا کیجئے
خود کا برا مت کیا کیجئے
کرنا پڑے جو کچھ بھی برا
برا بالکل مت کیا کیجئے

102
تری بزم میں ہم جو بیٹھے رہے
تمنا تھی دل کی سو بیٹھے رہے
بڑی دیر تک ہم رہے سوچتے
وہ تھی سوچ میری سو بیٹھے رہے

0
77
خوشی سے چور ہوتی جا رہی ہے
وہ ہم سے دور ہوتی جا رہی ہے
مرے ارمانوں پر پھیرکر پانی
بھنور سے دور ہوتی جا رہی ہے

0
66
یہ دنیا ساری ہمارے قصے ہی گاتی رہتی
کبھی جو ہم تم اداس رہتے تو ایسا ہوتا
بنا م طاقت یہ ناتوانی بھی کچھ جو کہتی
غلام ہم جو عذاب سہتے تو ایسا ہوتا
کوئی بھی رستہ وہ منزلوں کا نکال دیتے
اداس نسلوں سے ہم جو ملتے تو ایسا ہوتا

0
115
ریاست سے ٹکر کبھی تو نے لی تو
کھلے گا یہ عقدہ کہ ہے کیا ریاست
سیاست میں رکھا قدم جو کبھی تو
کھلے گا یہ عقدہ کہ ہے کیا سیاست
صحافت میں رکھا قدم جو کبھی تو
کھلے گا یہ عقدہ کہ ہے کیا صحافت

0
86
کرتے ہیں سارے بہت اچھی باتیں
کردار کو اچھا کیوں نہیں کرتے
لڑتے ہیں ساری عمر بے مقصد
مقصد کی خاطر کیوں نہیں لڑتے
جہل کے رستوں کے شیدائی
علم کے رستوں پہ کیوں نہیں چلتے

0
68
گھر جو سب کے پکے ہوتے
گرنے کے نا دھڑکے ہوتے
تم سے ہم بھی ملتے ہوتے
تم جو ہم کو ملتے ہوتے
کرتے ہم بھی ان سے شکوہ
وہ جو ہم پر مرتے ہوتے

0
66
بارشوں سے ہم تھک چکے ہیں اب
اے مرے خدا رحم کردے اب
بارشوں سے ہر سمت پانی ہے
اے مرے خدا رحم کر دے اب
بارشوں نے نقصان کر دیا
اے مرے خدا رحم کر دے اب

0
64
بارشوں کے موسم میں ہم بھٹکتے رہتے ہیں
دل کہیں پہ رہتا ہے ہم کہیں پہ رہتے ہیں
بارشوں کے موسم میں ہم سلگتے رہتے ہیں
دل کہیں پہ جلتا ہے ہم کہیں پہ چلتے ہیں
بارشوں کے موسم میں ہم بکھرتے رہتے ہیں
دل کہیں بکھرتا ہے ہم کہیں بکھرتے ہیں

0
88
سوچتا ہوں بولوں مگر بول کر بھی کیا کروں گا
دل کا درد کھولوں مگر کھول کر بھی کیا کروں گا
سنتا کون ہے یہاں پر بول کر کیا کروں گا
درد دل کے واسطے رو کر بھی میں کیا کروں گا

0
92
یہ بزمِ محبّت جو بیٹھی ہوئی ہے
محبت سے ان کی یہ مجلس سجی ہے
محبت سے پیغام اس کا ملا تھا
محبت سے سارے ہی آئے ہوئے ہیں
محبت سے نفرت کو ہم مات دیں گے
محبت نبھانے ہی آئے ہوئے ہیں

0
115
مصمم ارادے سے کی میں نے ہجرت
گناہوں کو چھوڑا ہے نیکی کی خاطر

0
83
رم جھم برسے ہے ساون
چاہت تیری ہے ساون
بادل برسے ہے ساون
یادیں تیری ہے ساون
خوشبو برسے ہے ساون
آنکھیں تیری ہے ساون

141
کریں گے برا تو برا ہوگا ہم سے
جو اچھا کریں گے تو اچھا ہی ہوگا
نہیں دیکھا میں نے کبھی روتا اس کو
رلایا نہ ہو جس نے خود بھی کسی کو
کھلانا پلانا اجر تم کمانا
کبھی بھی کسی پر نا تہمت لگانا

0
178
سچ کی اب تد فین کا سوچا جائے
راز اب اس کی موت کا کھوجا جائے

0
62
کاہے کو بتائے اصلیت اپنی
سچ سامنے آجائے برا لگتا ہے

0
88
جگنو تو کب کے روٹھ گئے ہم سے
بلبل بھی اب تو روٹھی سی لگتی ہے

0
115
طرز سخن کی یہ ہوتی ہے بڑی خوبی
نقص سخن کوئی رہنے جو نہیں دیتے

0
98
بد دلی سے وہ سنے تو خاک سمجھے میرا فرمان
بات میری وہ سمجھنا چاہے تو آساں بہت ہے

0
115
ہونے کا ہونا ہی تو اصل ہونا چاہیے
ہونے کے ہونے کا عنوان ہونا چاہیے

0
68
خوشی تھی کہ آئے گی عیدی کسی دن
ملے گی محبت سے عیدی کسی دن
یہ دنیا تھی کیا اور کیا ہو گئی ہے
وفاؤں سے بالکل ہی خالی ہوئی ہے
بھرم تھا جو پہلے ختم ہو رہا ہے
ملی ہم کو کس جرم کی یہ سزا ہے

0
87
ذبیحہ کا ہم جو ارادہ کریں
یہ وعدہ کریں پھر یہ وعدہ کریں
چلیں ہم کریں آج سے کچھ نیا
سخاوت کریں اور عبادت کریں
عبادت خدا کی سخاوت بھی ہے
طریقت یہی ہے شریعت یہی

0
88
وطن کا نوحہ
وطن کا مرے جو تماشا ہوا ہے
ملی ہم کو اپنے کیے کی سزا ہے
عمل سے ہیں خالی جو سارے کے سارے
دعاؤں پہ ہم نے گزارا کیا ہے
چلے گا وطن یہ ہمارا تو کیسے

1
102
خود کلامی
مخاطب تو اپنے سے ہو تو لیا کر
کبھی خود سے باتیں تو کر تو لیا کر
ستاروں میں ہر وقت کھویا رہے تو
زمیں پر کبھی تو بھی رہ تو لیا کر
کرے دوسروں سے نصیحت کی باتیں

0
136
سونے جیسی عمر میں اکثر
لوہے جیسے کام ہیں کرتے

0
73
چاند جیسا جب سے کہہ دیا ان کو
ہوگئے وہ چاند اور چاند عید کا

0
55
سردیوں میں بارشوں کے دن ہیں
بن تیرے اداسیوں کے دن ہیں
کیا بتلاؤں کس طرح کے دن ہیں
نا تمام سی خواہشوں کے دن ہیں
کرنیں سورج کی دیکھنے کو ترسوں
کالے کالے بادلوں کے دن ہیں

0
96
میں تو دنیا دیکھ لیتا
تجھ میں جو نا کھویا ہوتا

0
72
بونوں کے سماج میں اکثر
قد والوں کو جینے نہیں دیتے

0
87
اس کو تصور میں بسایا تو
اس نے تصویر بدل ڈالی

0
116
پتھر کے خداؤں سے لڑائی ہے
شیشے کی جبیں کے سہارے میری

0
116
عشق میں ناکامی کیسی ہوتی ہے
ادھ پڑھی کتاب جیسی ہوتی ہے

0
78
کیا سنائیں ہم دل کے درد خانے کی
کوئی اس میں روز زہر ڈال دیتا ہے

0
80
بیٹھے بیٹھے گم ہونے لگتا ہوں
اب تو خود سے تم ہونے لگتا ہوں

0
79
اچھی لگتی ہے حق بات وہی
جو ہمارے حق میں اچھی ہو

0
91
ہم بگڑتے رہتے ہیں
زندگی کے آنچل میں
ساتھ کوئی رہتا ہے
دل کے ہر بکھیڑے میں
غم پنپتے رہتے ہیں
بے دلی کے موسم میں

0
92
بستی میں جب رہتے تھے
دل ہی دل میں کہتے تھے
شہر میں جب ہم جائیں گے
پھر نہ بستی آئیں گے
شہر میں اب ہم رہتے ہیں
اور بستی کو ترستے ہیں

0
99
نئے زمانے میں تم جو ہم کو پرانی باتیں سنا رہے ہو
عجیب لگتے ہو تم بھی آخر یہ سب جو ہم کو سنا رہے ہو
دلوں کے قصے دلوں کے نغمے جو ہم سے تم بھی چھپا رہے ہو
سمجھ کے بچے بھولے ہم کو جو ہم کو تم یوں ڈرا رہے ہو
وفا کی باتیں جفا کی باتیں بتاں کی باتیں سزا کی باتیں
تمہاری باتوں سے لگ رہا ہے کبھی جو تم بھی خدا رہے ہو

0
101
انسان جو بہتر کرنے ہوں
استاد کو بہتر کرتے ہیں
اسکول جو بہتر کرنے ہوں
انداز کو بہتر کرتے ہیں
ٹعلیم سے دامن بھرنے ہوں
اخلاق کو بہتر کرتے ہیں

0
82
اک خواہش میری اتنی ہے
میری بستی بستے بس جائے
شہروں میں جب سے رہتے ہیں
کیوں بستی بستی کہتے ہیں
شہروں میں کیوں گمنامی ہو
جب بستی میری اپنی ہو

0
94
ایک نظم والدین کی محبت میں
میرا بابا میرا سب کچھ
میری مما میری سب کچھ
پہلے دن سے اب تک ساری
میری جیون دھارا ان سے
دولت عزت شہرت رتبہ

0
80
کام سے دل لگی ہو گئی ہے مجھے
عمر سے دوستی ہوگئی ہے مجھے

0
80
سچ کہنا اور سکھی رہنا
نا ممکن ہے بھئی ناممکن

0
60