مجبور دل پہ اتنا کبھی نہ زوال ہو
کھانے کو قورمہ ہو کھلانے کو دال ہو
کھالوں جو قورمہ تو ہضم بھی میں کر سکوں
محبوب ہی کے گھر نہ مرا انتقال ہو
شوق شکم پرستی نے رسوا مجھے کیا
ذوق شکم پرستی میں پھر بھی کمال ہو
یارب سلامتی ہو مرے میزبانوں پر
میزوں پہ قورمہ ہو کبھی بھی نہ دال ہو
آخر میں یہ کہوں کہ مرے دل میں قورمہ
اس کے سوا نہ کوئی بھی دل میں خیال ہو

44