نشانے بھی دشمن کے مجھ کو لگے پھر
چراغوں کو اپنے بجھا کر بھی دیکھا
سبھی آندھیوں نے جلایا ہے مجھ کو
ہواؤں سے دل کو لگا کر بھی دیکھا
ستمگر نہ جانے ستم کے سوا کچھ
وفاؤں میں خود کو جلا کر بھی دیکھا
نہ دل میں صنم کے جگہ مل سکی تھی
بہاروں کو دل میں سجا کر بھی دیکھا
سمندر کی لہریں بھی دشمن بنی تھیں
کناروں سے خود کو ہٹا کر بھی دیکھا
ہراک وقت مجھ کو بہت یاد آئے
وہ یادوں سے اپنی بھلا کر بھی دیکھا
بدلنا تھا اس نے نہ بدلا ہے وہ بھی
اناؤں کو اپنی مٹا کر بھی دیکھا

0
50