علاج غم محبت کی فراوانی سے ملتا ہے
سبق کچھ سیکھنے کو ایک نادانی سے ملتا ہے
کسی درویش سے ملتے علاج روح کی خاطر
سکون دل کہاں دنیا میں سلطانی سے ملتا ہے
یہ دریا کی روانی بھی ہے پیغام عمل پیہم
سبق کوئی جو سیکھے تو یہ آسانی سے ملتا ہے
تمنا کی مسافت میں اگر کشتی ڈبو بیٹھیں
تو کشتی کو کنارہ بھی پریشانی سے ملتا ہے
نہیں تیرا عمل کوئی بقائے ملک کی خاطر
وطن کو فائدہ کوئی مسلمانی سے ملتا ہے
کبھی جس نے مجھے چھوڑا تھا مرضی سے ہی الفت میں
مجھے وہ خود تو اکثر ہی پشیمانی سے ملتا ہے
امیر شہر سے ملنے کا موقع جب ملا دیکھا
امیروں سے بڑی خندہ پیشانی سے ملتا ہے
GMKHAN

0
21