کسی کو دل کے اندر ہی سجا کر رکھ لیا ہوتا
محبت کی کہانی کو چھپا کر رکھ لیا ہوتا
سخاوت کا وہ دریا جو کبھی مجھ سے ملا ہوتا
پیاسوں کو پلا کر بھی بچا کر رکھ لیا ہوتا
کہانی سے جو نکلا تھا بڑے خود سر طریقے سے
اسی کو پھر کہانی میں اٹھا کر رکھ لیا ہوتا
وفا کا ایک پیکر تھا جسے ہم بھول بیٹھے تھے
اسی کی یاد میں خود کو جلا کر رکھ لیا ہوتا
نگاہوں کے نشانے پر کبھی وہ آ ہی جاتا تو
زمانے کی نگاہوں سے بچا کر رکھ لیا ہوتا
اگر ہوتا وہ تاج سلطنت شاہی قبیلے کا
بنا چوری شرافت سے چرا کر رکھ لیا ہوتا
قسم لے لو اگر میرے کبھی جو بس میں یہ ہوتا
محبت کا مجسمہ ہی بنا کر رکھ لیا ہوتا
GMKHAN

0
23