خموشی سے اتنا تو میں بھر گیا تھا
جو چیخا نہ ہوتا تو بس مر گیا تھا
زمانے میں عزت مری بڑھ گئی تھی
نکل کر گلی سے تری گھر گیا تھا
محبت کے مارے کیے کام ایسے
جو ہرگز نہ کرتا وہ بھی کر گیا تھا
محبت نگر سے کبھی میں نہ جاتا
محبت سے تیری تو میں ڈر گیا تھا
اگر عقل کے میں نہ پہرے میں ہوتا
ترے عشق میں تو مرا سر گیا تھا

33