سنے تھے جو قصے بزرگوں سے ہم نے |
وہ قصے بھی ہم کو بھلانے پڑیں گے |
عمارت نئی جو بنانی ہو ہم کو |
تو بنیاد پھر سے بنانی پڑے گی |
نہایت ادب سے گزارش ہے میری |
وہ رستے پرانے مٹانے پڑیں گے |
وہ سپنے بزرگوں نے دیکھے تھے جو بھی |
حقیقت میں اب وہ دکھانے پڑیں گے |
مرے بس میں گر ہو جو کوزہ گری تو |
سبھی توڑ کر پھر بنانے پڑیں گے |
سماجوں کے سارے پرانے ترانے |
نئے ڈھنگ سے پھر یہ گانے پڑیں گے |
یہ دنیا ہے ساری اب آنکھوں کے آگے |
کوئی ڈھنگ کے آئینے لانے پڑیں گے |
پرانی یہ سوچیں گلے میں پڑی ہیں |
نئے بستے پھر سے اٹھانے پڑیں گے |
الہی مرے تجھ سے میری دعا ہے |
بدل دے یہ دل جو بدلنے پڑیں گے |
معلومات