یہ بستی نہیں اب تو رہنے کے قابل
بدن اب نہیں درد سہنے کے قابل
زباں پر بڑا لگ چکا اب ہے تالا
زباں اب نہیں کچھ بھی کہنے کے قابل
قلم کار ڈر کر قلم توڑ بیٹھے
قلم اب نہیں کچھ بھی لکھنے کے قابل
یہی زندگی ہے تو پھر موت کیا ہے
نہیں زندگی اب یہ جینے کے قابل
ملے زخم اتنے کہ کیا ہم بتائیں
نہیں زخم اب ہیں یہ سلنے کے قابل
ہے چھوڑا کسی نے کچھ ایسا نہ پوچھو
نہیں اب رہے ہم ہیں ملنے کے قابل
کتاب محبت کو پھاڑا ہے اس نے
نہیں اب رہی وہ ہے پڑھنے کے قابل
سمجھدار ہے وہ جو چپ چپ کھڑا ہے
بچا کچھ نہیں اب سمجھنے کے قابل
GMKHAN

0
9