غزل
جب سے دیکھا ہے تمہیں حیران ہیں
اتنے حیراں ہیں کہ پھر حیران ہیں
مل نہ پایا ساتھ تیرا روئے ہم
اتنا روئے ہیں کہ پھر حیران ہیں
آتے جاتے جب تمہیں دیکھا کیے
چال تیری دیکھ کر حیران ہیں
حسن تیرا دیکھتے ہی کھو گئے
کھو گئے ہم بھی کدھر حیران ہیں
تیرے ہاتھوں کی لکیروں میں لکھا
پڑھ کے ہم نے دیکھا تو حیران ہیں
ساتھ تیرے جو رہے خوش ہی رہے
ساری خوشیاں پاس ہیں حیران ہیں
جب سے تجھ سے ہم ہیں بچھڑے غم مرے
پل رہے ہیں آئے دن حیران ہیں
GMKHAN

0
5
33
اس غزل کا قافیہ کیا ہے ؟

0
کوئی قافیہ نہیں ۔۔۔غیر مقفی ہے

0
قافیہ حیران ہوں اگر کر لیا جائے تو غیر مردف

0
اگر کچھ درست نہیں تو اصلاح کی درخواست ہے

0
غزل ردیف کے بغیر ہو سکتی ہے قافیے کے بغیر نہیں -
مطلع طئے کرتا ہے کہ ردیف کیا ہے
آخر میں اگر کوئی ایک ہی الفاظ آ رہے ہوں تو وہ ردیف کہلاتے ہیں - ان سے عین پہلے قافیہ ہوتا ہے

جب سے دیکھا ہے تمہیں حیران ہیں
اتنے حیراں ہیں کہ پھر حیران ہیں

اس مطلع کے حساب سے ردیف ہوئی حیران ہیں - اور قافیہ تمھیں اور پھر ہوا جو کہ قافیہ نہیں ہے - لہذا یہ غزل نہ ہوئی - سب سے پہلے تو آپ اس تمھیں اور پھر کو ہم قافیہ کریں - باقی غزل اس کے مطابق درست ہوگی -

اور ہاں خیال بھی ٹھیک کیجیئے - اتنے حیراں ہیں کہ پھر حیران ہیں - یہ کوئی بات نہیں ہوئی آپ شائد کہنا چاہ رہے ہیں - اتنی حیرانگی ہے کہ حیران ہیں -


0