ایک نظم :زندگی
زندگی اک کتاب لگتی ہے
مشکلوں کا نصاب لگتی ہے
ساقی تیرے ہی میکدے کی یہ
مجھ کو کچی شراب لگتی ہے
زہر آلود سی ہواؤں میں
چاہتوں کا گلاب لگتی ہے
تو نے پوچھے سوال تھے جو بھی
ان کے سارے جواب لگتی ہے
جان پاؤں کبھی نہ اس کو میں
کچھ یہ ایسا حساب لگتی ہے
آسماں سے زمین پہ دیکھوں تو
مجھ کو ہر شے سراب لگتی ہے
چند دن تھے شباب کے ورنہ
یہ تو ساری خراب لگتی ہے
GMKHAN

0
3