وطن کا نوحہ
وطن کا مرے جو تماشا ہوا ہے
ملی ہم کو اپنے کیے کی سزا ہے
عمل سے ہیں خالی جو سارے کے سارے
دعاؤں پہ ہم نے گزارا کیا ہے
چلے گا وطن یہ ہمارا تو کیسے
بڑوں نے ہمارے خسارہ کیا ہے
بڑوں نے ہمیشہ کیے کا م الٹے
جو کاندھوں پہ بچوں کے ملبہ پڑا ہے
کرے کوئی اس کو جو سیدھا تو کیسے
کہ سارے کا سارا ہی الٹا پڑا ہے
مرے دیس کے ہیں یہ باسی جو باہر
انھیں کو یہ ملبہ اٹھانا پڑا ہے
لیا تھا جو قرضہ یہ چوروں نے مل کر
غریبوں کو ناحق چکانا پڑا ہے
مرے پاس بھی جو بچا کر رکھا تھا
مجھے ہی وطن پر لٹانا پڑا ہے
مرے دل پہ گزری قیامت ہے یارو
یہ قصہ جو مجھ کو سنانا پڑا ہے

1
76
مرے پاس بھی جو بچا کر رکھا تھا
گرانی میں یہ سب لٹانا پڑا ہے