کب کوئی درد آ کے جاتا ہے
اب تو شہروں سے خوف آتا ہے
کوئی ملتا نہیں کسی سے اب
ہر کوئی اپنے گھر کا کھاتا ہے
حال دل کا کسے سنایئں ہم
ہر کوئی بہرا ہوتا جاتا ہے
کوئی جو سنتا ہے تو بالاخر
ایک سن کے وہ سو سناتا ہے
خود وہ چلتا ہے اچھے جوتوں سے
کانٹے رستوں میں وہ بچھاتا ہے
فاصلے زہر بن کے پھرتے ہیں
اچھی گاڑی میں وہ تو جاتا ہے
آگ اس کی ہی دسترس میں ہو تو
جلتی وہ آگ کب بجھاتا ہے
کوئی چاہے خلوص سے ملنا
ہاتھ مشکل سے وہ ملاتا ہے
گاؤں سارے گرا دیے اس نے
گھر جو سب سے بڑے بناتا ہے
بیچ دیتا ہے سب کو وه گاڑی
جال سڑ کوں کا جو بچھاتا ہے
فیصلوں کا مجھی سے لے کے حق
فیصلوں سے وہی رلاتا ہے
جس کو عزت تھی ہم نے دی کتنی
مثل ظالم ہمیں ستاتا ہے

16