Circle Image

Sagar Malik

@Sagar

اس بے تکلفی کو مری اور بڑھا ہی دو
اب غرقِ جام ہو گیا ہوں تو پلا ہی دو
میرِ ادب ہوں اور کھٹکتا ہوں گر تمہیں
پھر اپنی انجمن سے مجھے تم اٹھا ہی دو
اب میرے اشک بھی یہ گوارا نہیں تمہیں
ایسا کرو کہ تم مری آنکھیں مٹا ہی دو

0
8
زمیں پہ ہوں میں مگر آفتاب کی خواہش
ہے میرے دل میں کسی انقلاب کی خواہش
تری ادا پہ نزاکت پہ ہار سکتا ہوں
کہ مجھ کو ہونے لگی ہے عذاب کی خواہش
ہزار چہرے مرے سامنے بھی آ جائیں
رہے مگر ترے ہی انتخاب کی خواہش

0
3
درد تھا آخری لمحوں کا تھی ہجرت کی گھڑی
سانس ٹوٹی تھی مری عین محبت کی گھڑی
وہ تجھے دیکھ کے پھر دیکھتے ہی رہ جانا
چشمِ تر نے مری دیکھی یوں قیامت کی گھڑی
خواب مجھ کو بنا کے خود وہ حقیقت ہو گیا
شبِ بیدار تھی طاری یہ اذیت کی گھڑی

0
6
چراغ کون یہاں چپکے سے جلاتا ہے
دھواں دھواں مری حسرت کا جگمگاتا ہے
پسند جس کو نہیں تھی یہ شاعری میری
وہ آج میری ہی غزلوں کو گنگناتا ہے
زوالِ شام کے جیسے محبتوں کا نور
کرن کی طرح نکلتا ہے ڈوب جاتا ہے

0
4
زباں کا خوں ہو اگل دے اگر جو سچائی
یہ عمر ہم نے سدا جھوٹے لوگوں میں پائی
رہے انا کی پرستش کے بول ہی بالے
ملا نہ کوئی یہاں بستیوں میں ہرجائی
افق کے دوش سے آئے بھی تو ستم کی کرن
کہاں غریب گھروں میں سحر لے انگڑائی

0
4
سکھا دے عشق تو کانٹوں پہ چل بھی سکتا ہوں
تو چاہے تو تری خاطر بدل بھی سکتا ہوں
جہاں نے موم سے پتھر بنا دیا مجھ کو
ہے تیری چاہ سے ممکن پگھل بھی سکتا ہوں
مجھے جو نیک فرشتہ سمجھ لیا تم نے
میں آدمی ہوں کسی پل مچل بھی سکتا ہوں

0
5
محبتوں میں سرِ جستجو نہیں دیکھا
جسے بھی دیکھا اسے خوبرو نہیں دیکھا
لہو کی پیاس نے لوگوں میں غل مچایا تھا
کسی کو میں نے لبِ آب جو نہیں دیکھا
ستارے چھپتے ہی بادل کی آڑ میں دیکھے
کسی کو روشنی میں تند خو نہیں دیکھا

0
3
محبتوں میں سرِ جستجو نہیں دیکھا
جسے بھی دیکھا اسے خوبرو نہیں دیکھا
لہو کی پیاس نے لوگوں میں غل مچایا تھا
کسی کو میں نے لبِ آب جو نہیں دیکھا
ستارے چھپتے ہی بادل کی آڑ میں دیکھے
کسی کو روشنی میں تند خو نہیں دیکھا

0
5
پیاسوں کے کارواں کو اپنی طلب رکھنے دو
پیکرِ جسم کے صندل پہ یہ لب رکھنے دو
روحِ ناشاد پہ اک جسمِ برہنہ لے کر
آج تم وصلِ قیامت کا غضب رکھنے دو
دل میں الجھے ہوئے ہیں یاد کے گیسو اب تک
مجھ کو اے بادِ صبا دردِ عجب رکھنے دو

0
5
چاہت کی گلی مجھ کو بلاتی ہے ابھی بھی
رستہ کوئی پرچھائی دکھاتی ہے ابھی بھی
آنکھوں میں سمندر کی لہر پھوٹ رہی ہے
اک موج قیامت کی رلاتی ہے ابھی بھی
یوں مجھ کو ملیں داسیاں کتنی مرے من کی
رادھا ہی مگر کرشن کو بھاتی ہے ابھی بھی

0
3
نظر سے چوم کے صدقہ اتار دو میرا
کبھی تو چاہتوں کا افتخار دو میرا
کیا ہے جبرِ مسلسل پہ انتظار ترا
کہ اب تو خود پہ کوئی اختیار دو میرا
گزر رہا ہے قیامت کا وقت مدت سے
کبھی یہ وقت بھی آ کے گزار دو میرا

0
1
اشکِ برہم سے میں نے دیکھی تھی ساروں کی حد
کم عدو سے نہیں تھی میرے بھی پیاروں کی حد
اس لیے بھی میں الجھتا ہی رہا تھا اس سے
دیکھنی تھی مجھے نفرت کے شراروں کی حد
محورِ جستجو تھا دیر تلک آسماں پر
ڈھونڈنی تھی مجھے کل رات ستاروں کی حد

0
1
شہرِ فنکار میں ان چہروں پہ چہرے رکھنا
کتنا آسان ہوا دل میں یہ دھوکے رکھنا
دیکھ کر جلوۂ آدم ہوئے اوسان خطا
کارِ ابلیس پہ مشکل ہوا سجدے رکھنا
جا بجا بکھرا ہوا ہے مرے دردوں کا وجود
کانچ کے جسم پہ پاؤں ذرا دھیرے رکھنا

0
1
جذباتِ منتشر کی روانی میں بہہ گئے
کچھ خواب میرے آنکھ کے پانی میں بہہ گئے
شیریں بیاں زبان سے سن کر وہ داستاں
پھر آج ان کی جھوٹی کہانی میں بہہ گئے
سب بن گئے مگر وہ مسیحا نہ بن سکے
میرے لیے جو ریشہ دوانی میں بہہ گئے

0
5
کچھ رقیبوں سے ملا کچھ مرے پیاروں سے ملا
رنج جتنا بھی ملا مجھ کو وہ یاروں سے ملا
ایک میرے لیے تھیں بند وہ باہیں اس کی
جو مجھے چھوڑ کے بستی میں ہزاروں سے ملا
کہہ کے سورج یہ سمندر میں کہیں ڈوب گیا
کوئی ساگر کبھی دریا کے کناروں سے ملا

0
4
یوں اب کہ لہرا کے شمشیرِ عام لوں گا میں
عدو سے فیصلہ ہے انتقام لوں گا میں
میں ناخنوں سے کھرچ کے ترے بدن کا لہو
گو موجِ دوش پہ مستِ خرام لوں گا میں
مٹا کے اپنی انا دشمنانِ جاں سے میں
قرارِ قتل سے پہلے سلام لوں گا میں

0
2
پہلے کسی کے ہجر میں لایا گیا ہوں میں
شاعر بنا نہیں ہوں بنایا گیا ہوں میں
اوباش محفلوں میں تری لذتوں پہ میں
دولت کی طرح تجھ پہ لٹایا گیا ہوں میں
افسانے میں مرے یہ کمی سی رہی سدا
کب حرفِ زیر اس کو سنایا گیا ہوں میں 

0
2
آنکھیں چھلک رہی ہیں ترے انتظار میں
مدھم ہے میری سانس بہت کوئے یار میں
بس جو قسم اٹھا گیا تھا تیرے سر کی میں
وہ قول اب نبھا رہا ہوں انکسار میں
دیکھوں تو میرا چاند بھی سورج بھی ہو تمہیں
اور کچھ نہیں ہے گردشِ لیل و نہار میں

0
4
آوارگی کو میری مٹا کیوں نہیں دیتے
تم مجھ کو مرے گھر کا پتہ کیوں نہیں دیتے
گر آنکھ کو تیری یہ کھٹکتے ہیں پرندے
طوفانِ لہو ان میں بہا کیوں نہیں دیتے
بس دور سے دیتے ہو یہ نظرانۂ فرقت
تم پاس مرے آ کے دغا کیوں نہیں دیتے

0
4
خیالِ زار میں میرے ابھر نہیں سکتے
جو میری سوچ کے پیمانے بھر نہیں سکتے
وجودِ روح میں شامل ہو جب انا کا نشہ
زباں سے ذائقے پھر یہ اتر نہیں سکتے
یہ عہدِ پر شکنی ہے کہ مر گئے ہیں ہمیں
وگرنہ میرے لیے آپ مر نہیں سکتے

0
7
42
وصال و ہجر کا صدمہ نہیں سہا جاتا
ترے بغیر تو اک پل نہیں رہا جاتا
کماں کو کھینچ کے رکھتی ہیں پر کشش آنکھیں
یہ تیر سینۂ بسمل میں ہے اٹھا جاتا
حسیں ہے کوئی بلا کا کہ سامنے اس کے
زباں ہلے بھی کیا کچھ نہیں کہا جاتا

4
43
ریشمی ڈور سے کھینچوں کہ کھچا آؤں گا
اس کے لہجے میں پکاروں میں چلا آؤں گا
تم کناروں سے کنارا تو ملاؤں کوئی
میں تو دریا ہوں سمندر میں بہا آؤں گا
پیڑ آنگن میں وہی پھر سے لگاؤ اپنے
میں پرندوں کی طرح پھر سے اڑا آؤں گا

8
جو تیرے ساتھ ہوئے تیرے ہمسفر ٹھہرے
دلِ جہاں میں وہی لوگ معتبر ٹھہرے
حلال ہم نے کمایا ہے صرف نفعِ عشق
جبھی تو رشتے مرے سارے مختصر ٹھہرے
پسند جن کی سے ہر شے کو گھر میں بھر ڈالا
مکیں وہی نہ کسی آن میرے گھر ٹھہرے

7
یوں شوقِ ترکِ بسر کائنات کرتا میں
جو تجھ سے ملتا کبھی کوئی بات کرتا میں
تمام اپنے شب و روز تجھ کو ہی پاتا
کبھی میں دن تو کبھی تجھ کو رات کرتا میں
سجا کے اپنے کسی زندگی کے لمحے میں
حسین اپنی یہ خوئے حیات کرتا میں

0
7
دل انہماکِ کفر میں کافر نہیں ہوا
بن بت تراش کے کوئی مندر نہیں ہوا
گنگا ندی میں تیاگ کے اپنے بدن کی راکھ
جب تک پیا نہ لہروں کو ساگر نہیں ہوا
سنگم نہیں ہے جب کسی اپنے سے بہر طور
پھر کوئی بھی مکان ہو وہ گھر نہیں ہوا

6
میں نے دیکھا ہے بارہاں
تاریخ کے بے ترتیب دستر خوانوں پہ
شرابی قلموں سے بہکی ہوئی
چیدہ چیدہ تاریخ کو درباروں کی رعونت بنتے
پھر یہ بھی دیکھا کہ ہر تاریخ مٹ گئی
ہر تلوار ٹوٹ گئی ہر قلم خشک ہوا

4
ان چراہوں کے بیچ و بیچ
بند گلیوں کے اس طرف
سب سے آخری کونے پر
وہ اک گرتا ہوا خستہ سا چھوٹا مکاں
یاد تو ہو گا تمہیں
اس مکاں میں لکڑی کا کمزوز دروازہ

9
کہکشائے جہاں میں کیا ہو گا
ہر طرف ہی مرا خدا ہو گا
بات کیونکر ہے صرف شہ رگ کی
ڈھونڈنے پر وہ ہر جگہ ہو گا
عشقِ منصور کا یہ نعرہ ہے
عشق میں آدمی فنا ہو گا

13
پانی جب سر سے گزرا تھا منظر ہم نے بھی وہ دیکھا تھا
کشتی اب جو تیری ڈوبی سمندر ہم نے بھی وہ دیکھا تھا
خستہ سے دیوار و در میں جو پھیلی ہے اب تیرے وحشت
یوں لرزیدہ سہما سہما اک گھر ہم نے بھی وہ دیکھا تھا
کرتی ہے نا اپنے من کی اس کی تصویروں سے بھی تو باتیں
تیری تصویروں کا یہ محشر ہم نے بھی وہ دیکھا تھا

12
جس کو دنیا کا مسیحا یہ ولی کہتے ہیں
لوگ سب اس کو زمانے میں علی کہتے ہیں
جس کے بارے میں قلندر کبھی رومی سے سنا
فہم زادوں میں اسے عقلِ جلی کہتے ہیں
خضر کہتے ہیں جسے زندگی کی آبِ حیات
اس کو سب رندِ نجف جامِ علی کہتے ہیں

9
رنگ لفظوں میں عجب آ جائے
شعر کہنے کا بھی ڈھب آ جائے
گر لکھوں میں تری پلکوں پہ غزل
مجھ پہ کانٹوں کا غضب آ جائے
ہم تو بیٹھے ہیں یہاں یار مرے
اٹھ کے جائیں کہ تو جب آ جائے

8
زخم سے خون پیا ہے تم نے
صرف رنجیدہ کیا ہے تم نے
باعثِ عشق ہنر کو میرے
مجھ سے بس چھین لیا ہے تم نے
جیسے جیتے ہیں محبت والے
ایک لمحہ بھی جیا ہے تم نے

23
اب تو آنکھوں کا یہ دریا بھی بہا ڈالا ہے
اب تو دردوں کو سرِ طور جلا ڈالا ہے
پھر یہ کیا ہے کہ جو سینوں کو پریشان رکھے
دیر و کعبہ میں اذیت کا یہ طوفان رکھے
صبحِ روشن میں مری آئے جو چپکے چپکے
خانۂ دل کے غلافوں میں یہ قرآن رکھے

28
کون اس شہر کے مقتل میں نگہباں ٹھہرا
میرے دشمن کا ہی سب حلقۂ یاراں ٹھہرا
اپنے انصاف پہ لینے کو زمانے سے دلیل
روح زخمی ہے بدن چاک گریباں ٹھہرا
زلفِ خم دار سے تیرے جو الجھ بیٹھا ہوں
جبر تو دیکھ کہ کتنا ہی میں ناداں ٹھہرا

28
زہر تم نے بھی جدائی کا پیا تو ہو گا
سوچتا ہوں کہ مجھے یاد کیا تو ہو گا
چاہے چھپ چھپ کے ہی دنیا سے مگر میرا نام
کپکپاتے ہوئے ہونٹوں سے لیا تو ہو گا
بن گیا ہو گا تمہارے لیے ہر وقت سزا
ایک پل میں کئی صدیوں کو جیا تو ہو گا

23
اپنی سرداری کا معیار تو رکھ لیتے تم
کم سے کم جبہ و دستار تو رکھ لیتے تم
تن مرا دھوپ سے جل جل کے بھنا جاتا ہے
گھر میں اک سایۂ دیوار تو رکھ لیتے تم
تیرے ہر وار سے جو بارہاں بچتا میں رہا
ایسے حالات میں تلوار تو رکھ لیتے تم

37
کام مطلب کے نہیں رکھتا ہوں
چند باتوں پہ یقیں رکھتا ہوں
جو مری دوستی کے قابل ہوں
پھر سرِ خم یہ جبیں رکھتا ہوں
پیر جتنے بھی پسارے جائیں
اتنی حد تک میں زمیں رکھتا ہوں

27
زہر اپنی جو زبانوں سے اگلنے لگے ہیں
لوگ معیارِ محبت سے پھسلنے لگے ہیں
اے سپیروں ذرا سا بانسری کو تیز کرو
آستینوں سے مری سانپ نکلنے لگے ہیں
ہم سے تسکینِ محبت جو سدا پاتے رہے
وہ کسی اور کی باہوں میں سنبھلنے لگے ہیں

33
صلیب دو مجھے یا پتھروں کے وار کرو
کہ پھر کوئی بھی ہو ستم بے اختیار کرو
کہ ایک نوحہ تو نوکِ زباں پہ لاؤں گا
بھلے مجھے کسی نیزے پہ اب سوار کرو
سپرد اب کسی ظالم کے ہاتھ میں کر دو
یا اپنے ہاتھوں سے پھر مجھ کو سوگوار کرو

23
آؤ آزادئ فرقت کو ہوا دیتے ہیں
کر کے اک دوسرے سے عشق بھلا دیتے ہیں
ساتھ پھر چلتے ہیں اس دشت کے ویرانے میں
پھر سے ہم دونوں کہیں خود کو گنوا دیتے ہیں
تم مرے لفظ کو کاٹو میں تمہاری باتیں
آج اس حد پہ محبت کو سزا دیتے ہیں

32
جو فکرِ دردِ سکندر ہیں ان کی ہم نس ہیں
ہماری شہ رگوں میں زہرِ عشق کے رس ہیں
ہوا کے ساتھ پرندوں کے غول اڑتے ہیں
ہیں ہم تو قید و قفس کے شجر جو بے بس ہیں
نہ اٹھ سکے گا یہ مزدور دل سے میرے بوجھ
ہماری پسلیاں بھی ڈیڈھ آٹھ اور دس ہیں

24
گرے جو آنکھ سے آنسو تو دھو نہیں سکتا
کمال یہ کہ میں دن رات رو نہیں سکتا
عجب ہے سلسلہ میرا بھی اِس محبت کا
کرم وہ مجھ پہ کرے یہ بھی ہو نہیں سکتا
ہے میرے پاس فقط درد، درد بھی اُس کا
یہ تحفہ میں کسی صورت بھی کھو نہیں سکتا

39
اب سوچتا ہوں جسم کے بے جان شہر میں
آیا تھا کس لیے کسی انجان شہر میں
عاشق کسی کی جان پہ یہ روح ہو گئی
مفلس ہے اب بدن مرا ویران شہر میں
سرگوشیوں کی چادروں میں سو گیا جہان
سنتا ہوں اپنی چیخ میں سنسان شہر میں

46
پتھر کا آئنہ یوں بنانے کا شوق تھا
ہر سنگ اس کے ہاتھ سے کھانے کا شوق تھا
آنکھیں کیے ہوئے ہوں جو رنگین خون سے
دل کو کسی پہ اشک بہانے کا شوق تھا
اے زندگی یہ میری تمنا بھی تھی کبھی
دلہن کبھی ہمیں بھی سجانے کا شوق تھا

41
بسترِ خواب سے پھر خود کو جگایا جائے
آ ذرا دردِ سفر خود کو تھکایا جائے
کچھ اسی واسطے ہم کو ہیں عطا یہ آنکھیں
غمزدو سیلِ سرِ اشک بہایا جائے
گھونسلہ ہم جو بناتے رہے چن کر تنکے
کیسے اب گھر کے کبوتر کو اڑایا جائے

48
یوں پہن کر یہ قبا خاک میں گڑ جاؤں گا
مثلِ شیشہ ہوں کہ پتھر سے بکھر جاؤں گا
بے زباں لہجوں کی فریاد سنا تو دوں میں
ایسے خاموش سے جنگل ہیں کہ ڈر جاؤں گا
روزِ روشن ہیں سخن جن کے پیمبر ہیں وہ
میں تو شاعر ہوں ابھی ہوں ابھی مر جاؤں گا

38
بات لفظوں میں ہو تو سادگی مر جاتی ہے
اک کہانی مری ہر بار بکھر جاتی ہے
ان ہواؤں سے میں کرتا ہوں گزارش تیری
جب سے سنتا ہوں ہواؤں سے خبر جاتی ہے
اس کی باہیں ہیں کسی پھول کے بستر جیسی
جن میں جاؤں تو تھکن ساری اتر جاتی ہے

44
کتنا دشوار ہے آنکھوں کو چراتے رہنا
بیٹھنا محفلوں میں درد چھپاتے رہنا
روٹھنے والے تو یوں روٹھ کے سو جاتے ہیں
ان کا عمرِ رواں ماتم یہ مناتے رہنا
نغمہ و رنجشِ بے حالِ دلِ مضطر کا
سوزِ تنہائی میں یہ ساز بجاتے رہنا

35
درندگی وہی خبطِ نیام میں ہے ابھی
ادائے مقتلِ شمشیر کام میں ہے ابھی
سبوئے رمز و قناعت پہ کر لیا سودا
مگر وہ تشنگی آسودہ جام میں ہے ابھی
سحر کی آنکھ میں کاجل کی وہ حسیں پرتیں
کہاں وہ جلوہ کسی سرخ شام میں ہے ابھی

33
روحِ اکسیر پہ اعجازِ محبت لکھ دے
عظمتِ جانِ پیمبر کی روایت لکھ دے
وہ تکلم کہ سرِ لوح ہے جس کا زینہ
پھوٹتی اس کی شعاؤں میں سے آیت لکھ دے
زخمِ پیچیدہ دل و جاں کی بڑھائے تکلیف
ہے اگر دور تو دوری کو نہایت لکھ دے

38
میرے عدو کی صف میں برابر کھڑے ہوئے
سینہ سپر جو یاروں کے لشکر کھڑے ہوئے
دو تیر اک جگر کو مرے کاٹتے ہوئے
اللہ جانے مجھ پہ جو محشر کھڑے ہوئے
کیسے عبور ہوتی وہ کشتی کہ جس کے بیچ
دیوارِ راہ بن کے سمندر کھڑے ہوئے

35
تمام عمر کسے یہ ملال رہتا ہے
جو مرتی آنکھوں میں پرنم سوال رہتا ہے
غموں کو عکسِ تبسم سے باندھنے کے لیے
سدا یہ آئنہ بھی خوش جمال رہتا ہے
پرندے اپنے پروں کو سہم کے کھولتے ہیں
کہیں عقاب کہیں خوفِ جال رہتا ہے

55
جو یہاں سے کبھی وہاں ہو گئے
ہم تو منزل سے بے نشاں ہو گئے
دیکھ سکتے ہیں چھو نہیں سکتے
جیسے ہم دونوں آسماں ہو گئے
اتنے مارے گئے مجھے پتھر
اب تو دردوں کا ہم سماں ہو گئے

42
ضبطِ پیہم سے میں آنسو کو پیے جاتا ہوں
زخم جو بھی لگے پھر اس کو سئے جاتا ہوں
ایک چہرہ ہے جسے دیکھ کے سر جھکتا ہے
ایک کعبہ ہے جسے سجدہ کیے جاتا ہوں
ایک فطرت سے بھی معصوم طبیعت ہے مری
اس پہ یہ داغ محبت کے لیے جاتا ہوں

47
یاد آتا ہے ترا کھڑکیوں سے جھانکنا وہ
آ کسی شام در و بام کی کھڑی پہ سکھی

30
گفتگو ہجر سے ہوتی ہے سماعت خود سے
ہے محبت بھی عجب پیشِ غمِ تنہائی
مجھ سے ہو کر کے گزرنا تھا ترا کیا ساگر
ہو گیا میں تو کوئی کوچہ خمِ تنہائی

43
یار آیا ہے مرا آج دھمالیں ڈالو
لاؤ گھنگھرو کہاں ہے آج مجھے ناچنا ہے

32
اظہارِ عشق دل لگی کو کیا نہ کیجئے
پاگل ہیں آپ حسن پہ مچلا نہ کیجئے
معصوم جذبوں کا لہو گھبرا کے بہہ گیا
خنجر کی آنکھ سے ہمیں دیکھا نہ کیجئے
بازارِ حسنِ مصر میں یوسف کو بیچ کر
یعقوب کی نگاہوں کا سودا نہ کیجئے

35
وقت کے قاعدے قانون سکھاتے جاؤ
بس یہی سر سری سا ساتھ نبھاتے جاؤ
اب کہ پوچھے گا زمانہ جو تمہارے بارے
کیا کہوں گا مجھے اے یار بتاتے جاؤ
غیر سے ہو نہ عقیدت مجھے پھر تیرے بعد
میرے افکار کی ہر سوچ جلاتے جاؤ

31
بخت پر میرے چمکا ستارہ نہیں
گرم جیسے کوئی بھی شرارہ نہیں
پیکرِ روح اس نے مرا چھو لیا
یہ حقیقت مجھے اب گوارہ نہیں
مجھ کو پیاری تھی جنت سے دنیا کبھی
جب تلک میں تجھے خود سے ہارا نہیں

47
جلا چراغ ہواؤں میں چھوڑ آیا ہوں
میں دشتِ ہجر پہ دریا کو موڑ آیا ہوں
نہ دکھ سکی مجھے باریکیاں نگاہوں سے
سجا کے ایک حسیں خواب توڑ آیا ہوں
ندی بھنور سے چھلک کے جو آنکھ سے ٹپکی
پلک جھپک کے میں لہروں کو موڑ آیا ہوں

49
پیڑ سے پیشتر ہرا ہو گیا
عمر سے اپنی کچھ بڑا ہو گیا
عجزو غم سے نیاز مند ہو کر
ہر بشر خائفِ خدا ہو گیا
قبل اس کے سمیٹ لیتا میں
وقت سے آدمی جدا ہو گیا

74
اک بے بسی سی سامنے آنکھوں کے چھا گئی
جاتے ہوئے چراغ وہ گھر کے بجھا گئی
وہ کائناتِ عشق و عدم کا وجود تھی
دھرتی سے آسماں کی کشش میں سما گئی
ایسی سپاہ ناک تھی شعلوں کی تاب تھی
مقتل میں آگ پھونک کے جنگل جلا گئی

26
نغمۂ درد کی روداد لیے پھرتے ہیں
شاعری کیا ہے کہ فریاد لیے پھرتے ہیں
ہم کہ تسکینِ جنوں کے لئے ہاتھوں میں فقط
جا بجا تیشۂ فرہاد لیے پھرتے ہیں
رقص کرتے ہوئے احساس نے دیکھا ہے مجھے
کس طرح ہم دِلِ برباد لیے پھرتے ہیں

44
شکستہ شب میں تمہاری وحشت نے سر اٹھایا تو کیا کرو گے
تمہیں تمہارے ہی نیم خوابوں نے گر جگایا تو کیا کرو گے
پلک پلک سے چھلک رہی ہے مری اُداسی لہو کی صورت
مگر اداسی کی بارشوں نے تمہیں رلایا تو کیا کرو گے
ہوائے ظلم و ستم نے میرا یہ خستہ گھر تو گرا دیا ہے
انہی ہواؤں نے گر تمہارا دیا بجھایا تو کیا کرو گے

155
روٹھے ہوئے لوگوں کو منایا نہیں کرتے
جو دل سے نکل جائیں وہ آیا نہیں کرتے
کیوں پنچھی وہ گھر لوٹ کے آیا نہیں کرتے
یوں اپنے شجر کو تو ستایا نہیں کرتے
مدت ہوئی ہے بسترِ شب نیم پہ سوئے
یوں قبر سے مردوں کو جگایا نہیں کرتے

35
حالتِ نازک پہ تو روتا ہے کیا
آخری لمحے کوئی کھوتا ہے کیا
کچھ تو اندر میرے سینہ کوب ہے
ماتمِ دل عشق میں ہوتا ہے کیا؟
جھونک دیتی ہے روش یہ آگ میں
عشق یہ زلفوں سے بھی ہوتا ہے کیا

38
وادئ موت میں سے گزرتے تو دیکھیے
دردوں کے آئنے میں سنورتے تو دیکھیے
الہاقِ جاں سے بستئ جاناں تلک مجھے
زخموں سے چور چور ابھرتے تو دیکھیے
خستہ بدن کی چیخ سے لرزاں ہوئی صلیب
اپنے مسیح کو ذرا مرتے تو دیکھیے

35
رشتوں میں بھی حسد ہے محبت میں بھی خلل
ساگر بڑی خراب ہے دنیا کی انجمن

26
جاں جائے گی قسم سے یوں جانے پہ آپ کے
دیکھو نہ جائیے ہمیں تنہا یوں چھوڑ کے

39
میری دستار کی لگا قیمت
اپنے سردار کی لگا قیمت
شہر کے شہر ہو چکے نیلام
میرے گھر بار کی لگا قیمت
بیچ میں آ کھڑی ہے اک دیوار
دل کے سنسار کی لگا قیمت

65
ہیں میرے دل میں ہزار سوچیں
کہ جن میں اکثر بے کار سوچیں
ہیں بھار لمحۂ فرصتوں پر
یہ بکھری سی اشکبار سوچیں
تجھی کو سوچیں یہ ہر گھڑی بس
غضب کی ظالم ہیں یار سوچیں

28
لیلیٰ کو ہیر مجنوں کو مجنون کر دیا
اس عاشقی نے عاشقوں کا خون کر دیا
امیدِ سحر عہدِ وفا خواہشِ طلب
ہر شے کو اپنے آپ پہ ممنون کر دیا
دل سنگ و خشت بھی ہوا پھر موم بھی ہوا
پھر قہر و ظلم و زیست کا قانون کر دیا

74
سنسارِ جسم سے کسی پل لوٹ جائیں گے
دشوار ہیں کہ ہو کے سہل لوٹ جائیں گے
دھرتی سے خاک چنتے ہیں قبرِ فشار کو
ہو جائے کام آج کہ کل لوٹ جائیں گے
چٹان پختہ قائم و دائم ہے اپنی جا
ہونے دو مجھ کو خستہ و شل لوٹ جائیں گے

55
شکوے لبوں پہ غم کے سمیٹے چلے گئے
آئے تھے تیرے شہر بکھرتے چلے گئے
ایسی اداس شام میں نکلے تھے گھر سے ہم
رہنے جہاں میں آئے تھے مرتے چلے گئے
کیسی کلا تھی ہاتھ میں ان کے کیا کہیں ؟
کنکر کے زخم تھے کہ نکھرتے چلے گئے

35
مٹی کے ان بتوں سے مری ہے یہ التجا
آدم بنائے پھر سے کوئی روح پھونک کے

88
کتنے بے چین رہا کرتے تھے
روز و شب ہم سے ملا کرتے تھے
تیری سانسوں کی مہک سے ہر دم
چین بھر سانس لیا کرتے تھے
اپنی آنکھوں کے تبسم سے تم
مجھ سے ہر بات کہا کرتے تھے

55
آنکھوں میں آنسوؤں کے کنارے نہیں رہے
افسوس تیرے عشق کے مارے نہیں رہے
کیسی خلش سے بھرنے لگا ہے یہ دل مرا
وحشت کے ساتھ میرے گزارے نہیں رہے
صحرا بدل رہے ہیں حدِ شہر میں سبھی
تنہائیوں کے بھی وہ سہارے نہیں رہے

43
یاروں مرے لئے اب ایسی کتاب لا دو
ذکرِ وفا نہ ہو جس میں وہ نصاب لا دو
سپنوں میں جب بھی آئے ہو جائے وہ ہمارا
قسمت کے آشیاں سے میرا یہ خواب لا دو
ہے آپ کو قسم اس میخانئہِ جنوں کی
جو مجھ کو بھی مٹا دے ایسی شراب لا دو

35
بت بنتے ہیں ہزاروں انساں کوئی بنائے
ترکیب جینے کی دے پھر عشق بھی سکھائے
صحرا سے جو صدا آئے شورِ لیلیٰ کی تو
پھر کیوں نہ دوڑ کے ننگے پاؤں مجنوں جائے
کہتا ہوں جس کے مکھڑے کو ماہتاب اکثر
ہے آرزو کہ شب بھر وہ چاند جگمگائے

54
بدن پہ زخمِ عنایت کا کچھ حساب نہیں
گرفتِ عشق میں ہونا بھی کم عذاب نہیں
حواس باختہ کو اس میں ہوش پھر نہ ملے
یہ دردِ جاناں ہے ساقی تری شراب نہیں
کہ جب کبھی ترا جی چاہے نام لکھ ڈالے
یہ دل ہے میرا خریدی ہوئی کتاب نہیں

34
اوراقِ زندگی کی بکھرتی ہوئی کتاب
پڑھتا ہوں سحر و شام سسکتی ہوئی کتاب
تیزاب پڑھنے والوں کے سینوں میں گھول دے
ایسی ہے میرے غم کی ترستی ہوئی کتاب
کونے میں ایک شیلف پہ اکڑی ہے دھول سے
سالوں سے رفتہ رفتہ یہ پھٹتی ہوئی کتاب

0
51
وہ چہرہ دھڑکنوں کے دھڑکنے کا تار ہے
آنکھوں کا موڑ موڑ سجل آبشار ہے
لکھتی ہیں پریاں پلکوں پہ اس کی کہانیاں
شہزادیوں کے حسن کا کوہِ وقار ہے
باتوں میں اس کے جھڑتے گلابوں کی روشنی
ہونٹوں پہ بے خودی سے مچلتی بہار ہے

3
95
روشن رہے جہاں میں مری انگڑائیاں
خوشبو چھپی محبتوں میں میری لوریاں
اک قصر میں چھپا ہوا کچھ دھڑکنوں کا راز
ہو سکتا ہے یہی پہ کہانی مری ملے
پرچھائیوں کے آہنگوں میں بس گیا ہوں میں
موسیقیوں کے تار سے لپٹا ہوا ہوں میں

108
راہِ مصیبتاں میں اچکتے چلے چلو
منزل کی ہے تلاش تو چلتے چلے چلو
سازش یہ کر رہی ہے فضا لوٹ جائیں ہم
اے کاروانِ مستوں ابھرتے چلے چلو
پاؤ گے ہوش بے خودی کے درمیاں میں تم
پیو یہ جامِ عاشقی مرتے چلے چلو

48
سناں کو جس نے چوم کر خدا کا دیں بچا دیا
سلام اُس حسین پر کہ گھر کا گھر لٹا دیا
نجانے کتنے سال سے تھی تشنہ لب یہ کربلا
حسین نے جو ایک پھول کا لہو پلا دیا
مماثلت ہے اس لیے بھی اپنے دین سے مجھے
حسین نے جو اس میں اپنی خوشبو کو ملا دیا

37
آغازِ مظالم کے ہر انجام پہ روئے
کل شب کہ بہت حسرتِ ناکام پہ روئے
پابندِ سلاسل جو ہوئے قیدئ مشتاق
وہ عشقِ خمیدہ ترے الزام پہ روئے
یوں ذہنِ اذیت میں شماراں تھے مصائب
ہر سوچ کے نادیدۂ اُوہام پہ روئے

51
آنکھیں لہو لہو ہیں جدائی کے داغ سے
گھر اب کہ ہے جلا مرا گھر کے چراغ سے
راتیں خزاں کی اور ہے برساتوں کا ہنر
بوڑھے شجر کو پیار ہے اس اجڑے باغ سے
ہوتا نہیں ہے اس لیے بھی ٹھیک میرا کام
لیتا ہوں کام دل کا میں ہائے دماغ سے

204