ان کے قصوں کا ماجرا تھا میں
لب پہ ان کے کبھی کھلا تھا میں
اپنے وہموں سے تیرے وہم تلک
دشتِ امکاں میں کھو گیا تھا میں
ایک آوارہ سی ہوا کے اثر
اک دیے کی طرح بجھا تھا میں
بے سبب مسکراتے چہروں کا
حال پوچھا تو رو دیا تھا میں
میری تنہائی کو بسر کرتا
کس کی خاطر بہت بھلا تھا میں
ان کی حالت بھی کچھ شکستہ تھی
ان کے پہلو سے جب اٹھا تھا میں
درد کے بوجھ میری پشت پہ تھے
کاروانوں کا قافلہ تھا میں
اس سے پہلے میں گھر پلٹ آتا
کچھ بہت دور جا چکا تھا میں
اک دوانہ ملا سرِ صحرا
ساتھ مجنوں کے پھر رکا تھا میں
اٹھ کے آتا بھی کیا بھلا ساگر
غیر بستی میں سو گیا تھا میں

10