کہکشائے جہاں میں کیا ہو گا
ہر طرف ہی مرا خدا ہو گا
بات کیونکر ہے صرف شہ رگ کی
ڈھونڈنے پر وہ ہر جگہ ہو گا
عشقِ منصور کا یہ نعرہ ہے
عشق میں آدمی فنا ہو گا
اس کے چہرے کا آئنہ تکنے
آج خود آئنہ سجا ہو گا
حسنِ ماہِ تمام پر اپنے 
سب سے پہلے وہ خود فدا ہو گا
زہر لہجے میں یوں نہیں ہوتا
وہ کسی سانپ کا ڈسا ہو گا
آسماں لال ہو گیا سارا
ایک قطرہ لہو بہا ہو گا
سب سے کہتا ہے شام کا سورج
پھر سمندر میں کچھ گرا ہو گا
دیکھ لو اک نظر یہ میخانہ
پی کے ساگر کہیں پڑا ہو گا

5